نیشنل فارمرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ کلمے کے نام پر دو ہی ریاستیں قائم ہوئیں، ریاست طیبہ اور پاکستان، یہ محض اتفاق نہیں۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے، گرین پاکستان انیشیٹیو کا مقصد زراعت پرکام کرنا ہے، گرین پاکستان انیشیٹیو کی آمدن کا بڑا حصہ صوبوں کو جائے گا، باقی حصہ کسانوں اور زرعی تحقیق کے لیے رکھا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر ہیجان، مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، پاکستان کے بارے میں افواہیں اور منفی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، جھوٹی خبروں سے تاثر دیا جا رہا ہے جیسے ریاست وجود کھوتی جا رہی ہے، قوم کے ساتھ مل کر ہر قسم کے مافیا کی سرکوبی کریں گے۔ آرمی چیف نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان سے ہر محب وطن پاکستانی اتفاق کرے گا۔ اس سے بھی زیادہ سنگین مسائل کی نشاندہی ماضی میں کی جاتی رہی ہیں مگر کبھی بھی ان مسائل کو حل کرنے کی نیک نیتی سے کوشش نہیں کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر ملک اس وقت دو طبقات اشرافیہ اور عوام یعنی خاص و عام میں بٹا ہوا ہے۔ عام آدمی کا حکومت اور اداروں پر بھروسا نہیں رہا اور اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے، جسے حل کرنے کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ ملک میں اگلے ماہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ انتخابی نظام پر بھی عوام کی اکثریت بھروسا نہیں کرتی ہے۔ خدمت کی سیاست کرنے والوں کو کرپٹ انتخابی نظام کامیابی سے روکے رکھتا ہے۔ اگر اس الیکشن کے ذریعے بھی کسی ایسی حکومت کا قیام عمل میں آیا جس پر عوام کا اعتماد نہ ہوا تو یہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔
اہل اقتدار جو تقریریں کرتے ہیں، عمل بالکل اس کے برعکس کرتے ہیں۔ جب ہی تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آئی کہ کلمے کے نام پر دو ہی ریاستیں قائم ہوئیں، ریاست طیبہ اور پاکستان، مگر اس وقت ریاست پاکستان میں ریاست طیبہ کے بالکل برعکس نظام قائم رکھا گیا ہے۔ ریاست طیبہ میں اہل اقتدار اور ایک عام شہری کے لیے انصاف کے حصول کا ایک ہی پیمانہ رائج تھا جبکہ اس وقت ریاست پاکستان میں ایک عام شہری کو انصاف میسر نہیں ہے۔ آدھی رات کو عدالتیں کسی غریب کو انصاف دینے کے لیے تو کسی نے کھلتے ہوئے نہیں دیکھی ہے۔ ریاست طیبہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح کوئی بیٹی بیچی نہیں گئی تھی بلکہ بیٹیوں کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کرنے کی تاریخ ملتی ہے۔
ریاست پاکستان کے حکمران اس قدر نااہل ہو چکے ہیں کہ گرین پاکستان انیشیٹیو کا منصوبہ آرمی چیف کو پیش کرنا پڑتا ہے۔ یہ آرمی چیف کا کام تو نہیں ہے۔ یہ تو حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے۔ اس طرح تو عوام کا ریاست پر کبھی بھی اعتماد قائم نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے مگر پھر بھی دنیا کے مقروض ترین ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ سارے وسائل اشرافیہ ہڑپ کر رہے ہیں۔ پہلے عدلیہ حکمرانوں کو کرپشن کے الزام میں نااہل قرار دیتی ہے پھر کچھ دنوں کے بعد ہی ان ہی عدالتوں کے ذریعے وہ بے گناہ قرار پا کر اقتدار کے لیے اہل بن جاتے ہیں۔
پاکستان کے مسائل کا حل ریاست پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ ملک بھر کے عوام ڈاکٹر عافیہ کی بے گناہی کی بنیاد پر اسے امریکی قید ناحق سے رہا کرا کر وطن واپس لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عافیہ موومنٹ کا کوآرڈینٹر ہونے کے ناتے ملک بھر سے عوام مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔ وہ عافیہ کی قید ناحق پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ جب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کیس میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر حکومت عمل کررہی ہے؟ اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کب تک متوقع ہے؟۔ جب میں انہیں بتاتا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں رکھی ہوئی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد بارہا کہہ چکے ہیں کہ ریاست مدعی بن جائے تو عافیہ کی رہائی کچھ مشکل نہیں ہے تو عوام کی طرف سے ریاست اور حکمرانوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کریں گے۔ بے گناہ اور پاکستانی شہری ہونے کے ناتے یہ عافیہ کا آئینی، اخلاقی اور شرعی حق بنتا ہے کہ ریاست پاکستان اسے امریکی قید ناحق سے آزاد کرائے۔
ڈاکٹر عافیہ کی قید ناحق کے دوران 2008، 2013 اور 2018 کے عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہوئی تھیں۔ ان تینوں سیاسی جماعتوں کے چھے وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، عمران خان اور شہباز شریف میں اتنی اخلاقی اور سیاسی جرأت ہی نہیں تھی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے حاصل اختیارات کا استعمال کرسکتے۔ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی سے قوم کا ریاست اور سسٹم پر اعتماد بحال ہوگا۔ ریاست پاکستان کے شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوگا جس کے باعث سوشل میڈیا پر ہیجان، مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی، پاکستان کے بارے میں افواہیں پھیلانے اور منفی باتوں کا خاتمہ ہوگا، ریاست کے وجودکھونے کی جھوٹی خبریں چلانے کی کسی میں ہمت نہیں رہے گی اور حکومت قوم کے ساتھ مل کر ہر قسم کے مافیا کی سرکوبی کرسکے گی مگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلے ریاست پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ریاست پاکستان کا قیام اشرافیہ کے لیے نہیں عوام کے لیے لایا گیا تھا۔ ان شاء اللہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی ریاست اور عوام کے لیے رحمت کا باعث بنے گی۔