سیاسی یوم حساب قریب آرہا ہے

652

آٹھ فروری کو ملک میں عام انتخابات ہیں، قومی اسمبلی کی دو سو چھیاسٹھ حلقوں میں ووٹرز اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے، اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے بھی منتخب کیے جائیںگے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور عوام کے سامنے رکھے ہیں جن پر سیاسی، علمی، صحافتی حلقے ان منشوروں کی اہمیت، ان کے اثر اور ان کی عملیت پسندی پر بحث کر رہے ہیں۔ وعدے کیے جارہے ہیں کہ تین سو یونٹس بجلی مفت فراہم کی جائے گی، تنخواہوں میں اضافہ کردیا جائے گا مگر آئی ایم ایف نے بھی ان نعروں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے، اس نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ یہ دونوں کام نہیں ہوسکتے، اب پیپلز پارٹی کیا نعرہ دے گی؟ مفت نظام صحت، 30 لاکھ گھروں کی تعمیر، مزدور، کسان اور نوجوان کے لیے بے نظیر کارڈ اور بھوک مٹاؤ پروگرام سمیت نہ جانے کیا کیا وعدے کیے جارہے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ سب پروگرام بس اقتدار میں آنے کی کوشش ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کا منشور ابھی تک عوام کے ہاتھوں میں نہیں پہنچا، یہی حال پیپلزپارٹی کا ہے، بس اعلان ہی کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی کہانی ذرا دلچسپ ہے، منشور کے نکات کا اعلان چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا ہے جب کہ انتخابی میدان میں ٹکٹس پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے دیے ہیں۔ بہر حال دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔

جماعت اسلامی نے نومبر میں اپنے منشور کا اعلان کیا تھا۔ اس میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا، سودی نظام کا خاتمہ، خواتین کے لیے تعلیم وروزگار اور دیگر مواقع، کرپشن کا اور اشرافیہ کلچر کا خاتمہ، عام آدمی کے مسائل کا حل دیا گیا ہے، جہاں تک منشور کی بات ہے، منشور کی اپنی ایک اہمیت ہے، سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو بہت اہم گردانتی ہیں اور اس کو پالیسی سازی کے لیے رہنما دستاویز قرار دیتی ہیں لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں منشور کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ان کا گمان ہے کہ سیاسی جماعت کے کارکنان تو دور کی بات سیاسی جماعت کے کئی اراکین پارلیمنٹ بھی اپنے منشور کو نہیں پڑھتے عموماً سیاسی جماعتوں میں کچھ دانشور ہوتے ہیں جو بڑی جاں فشانی سے منشور لکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام میں بہت کم ہوتے ہیں جو انہیں پڑھتے ہیں، معاشی معاملات میں تمام لبرل سیاسی پالیسی کا نقطہ نظر ایک ہوتا ہے۔

جماعت اسلامی غیر سودی معیشت، اسلامی نظام حیات کے عملی نفاذ اور عوام کے لیے سماجی انصاف کی بات کرتی ہے خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں عموماً بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوتا ہے جیسا کہ مسلم لیگ(ن) نے 300 یونٹ فری بجلی دینے کی بات کی ہے اور اسی طرح کی باتیں بلاول زرداری کی طرف سے بھی کی گئی ہیں پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر ان پر عمل درآمد آسان نہیں ہے اس طرح کے نعروں سے یہ مالی خسارہ بھی کم نہیں کر سکتے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی، دفاعی بجٹ اور آئی پی پی کی ادائیگی تمام حکومتوں کے لیے درد سر ہیں اور یہ مستقبل کی حکومت کے لیے بھی درد سر رہیں گے ملک کا کاروباری طبقہ بھی اپنی رائے رکھتا ہے ان کی رائے سے کسی اتفاق ہو نہ ہو بہر حال ان کی رائے اور مطالبہ ہے کہ شرح سود میں اضافہ، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور درآمدات کی لا محدودیت آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے ان تمام اقدامات سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے تو ایسے میں ایکسپورٹ کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ اب آتے ہیں کیا منشور کا اثر ہوتا ہے؟ منشور کیونکہ پڑھا ہی نہیں جاتا تو اس کا اثر کیسے ممکن ہے، جو چیز ووٹر پر اثر انداز ہوتی ہے وہ بیانیہ ہے یا کچھ نعرے ہیں باقی معاملات میں منشور کا ووٹر پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور یہ بات بھی ہے کہ منشور پر عمل درآمد بھی آسان نہیں ہوتا، سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں مشکلات ہوں گی، یا ہوسکتی ہیں۔