آج چھبیس جنوری بھارت اپنا یوم جمہوریہ منارہا ہے۔ اس روز بھارت اپنی نخوت طاقت اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔ فوجی قوت اور دبدبے کی نمائش کرتا ہے اور خطے کے چھوٹے ممالک پر اپنی دھاک بٹھاتا ہے۔ دہلی سمیت کئی مقامات پر فوجی پریڈ منعقد ہوتی اور اسلحے کی نمائش کی جاتی ہے۔ کشمیر میں اس روز کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کشمیری بھارت کی طاقت اور دبدبے کو ماننے سے انکاری ہیں۔ بھارت نے کشمیر پر اپنا قبضہ جبری طور پر قائم کیا ہے اس لیے کشمیری بھارت کے رعب اور اس کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ کشمیر میں بھارت کا ہر قومی دن یوم سیاہ کے طور پر منانا پرانی روایت ہے۔ اس بار بھی کل جماعتی حریت کانفرنس نے بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ کشمیر کے گلی کوچوں میں پوسٹر آویزاں ہیں جن میں اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی اپیل کی گئی ہے۔ کشمیریوں کے لیے بھارت کے قومی دنوں کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا آغاز ستائیس اکتوبر کو اسی وقت ہو گیا تھا جب کشمیر کی وادیوں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ بھارت نے اپنی فوج سری نگر ائرپورٹ پر اُتار دی ہے اس کے ساتھ کشمیرکے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔ حالات سے مایوس ان سرگرم اور جواں سال سیاسی کارکنوں نے پاکستان کی طرف ہجرت شروع کردی تھی جو سیزفائر لائن اور بلند پہاڑوں کو عبور کرنے اور میلوں پیدل چلنے کی سکت رکھتے تھے۔ اس میںکوئی شک نہیں کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور اس کے قائد شیخ محمد عبداللہ بھارتی فوج کو ایک ناگزیر برائی، جان بچانے کے لیے شراب کا گھونٹ اور مسیحاجان کر بغلیں بجارہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ چند ہی برس میں فوج امن وامان قائم کر کے خودمختار کشمیر کو ان کی جھولی میں ڈل کر لکھن پور سے آگے چلی جائے گی۔ مگر ان کی یہ غلط فہمی تادیر برقرار نہ رہ سکی۔ نیم خودمختار ریاست جموں وکشمیر کے محترم وزیر اعظم کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ کوئی چھوٹی قوم جب بڑی قوموں کے مفادات کا ایندھن بن جائے تو اس کے پاس نار نمرو سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔
خُوبرو لوگوں کی دھرتی پر قبیح صورت مرہٹوں کی مسلسل موجودگی کسی ستم سے کم نہ تھی اس پر مستزاد ان کے ہاتھوں میں ہمہ وقت تنی ہوئی وہ بندوقیں تھیں جن کی نال میں آخر تک روشنی کا کوئی سراغ ہونے کے بجائے تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اصلی وزیراعظم نہرو نے اپنے دوست لیکن چھوٹے وزیر اعظم شیخ عبداللہ کو اقتدار کی مسند سے اُٹھا کر پٹخ دیا اور ان کا ٹھکانہ جیل قرار پایا۔ اس کے بعد بھارت نے دنیا کی ہر عیاری، دھوکا دہی، جعل سازی، دھونس، دھاندلی، ظلم وتعدی کا سہارا لے کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر آفرین ہے کشمیری قوم کے عزم و ہمت پر کہ جو چھیاسٹھ برس سے مسلسل ایک ہی حرف انکار بلند کیے ہے۔ جو یہ ہے کہ وہ بھارتی نہیں، بھارتی نہیں بن سکتے۔ بھارت نے انہیں اندار گاندھی کی موت پر آنسو بہانا سکھانے کی پر تدبیر کی مگر وہ جذباتی اور سیماب صفت لوگ بھٹو اور ضیاء الحق کی موت پر روتے رہے، بھارت نے انہیں کپل دیو اور اظہر الدین کے چھکوں پر دیوانہ وار رقص پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ سو دوزیاں سے عاری لوگ میانداد اور شاہد آفریدی کے چھکوں پر رقص ومستاں ہوئے۔ بھارت نے ان کے ذہنوں کی انڈینائزیشن کی تدبیریں کیں تو یہ صوفی منش قوم خود اپنی ذات اور قومی وجود میں گم ہو کر Self centred ہو کر رہ گئی۔ اس نے اس بات سے کوئی غرض نہیں رکھی کہ لکھن پور سے آگے کون حکمران ہے اور کیا ہوتا۔ دہلی کے روز وشب کیا ہیں؟ اور وہاں کیا ہوتا ہے؟ اس نے بھارت کے دیوہیکل ہیروز کے مقابلے میں کشمیریت اور کشمیری شناخت کا چراغ جلائے رکھنے کے لیے اپنے چھوٹے چھوٹے ’’میڈ اِن کشمیر‘‘ ہیرو تراشے اور تلاشے۔ کشمیری قوم کی محدود دنیا بانہال کے پہاڑوں سے اِس پار ہی رہی۔ وہ بھارت کے دکھ میں اس کے ساتھ روئے نہ اس کی خوشیوں میں ہنسے۔ حد تو یہ کہ انہوں اپنے رونے اور ہنسنے کے لیے اپنے دکھ اور اپنی خوشیاں تراشیں۔
کشمیری قوم آج بھی مُصر ہے کہ بھارت انہیں بھارتی بنانا چاہتا ہے تو اس کے معروف جمہوری طریقہ اختیار کرے۔ وہ طریقہ جس کا اعلان و اظہار مہاراجا کے پروانۂ الحاق ملنے کے بعد وائسرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن نے کیا تھا کہ ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں اگر کوئی اختلاف پیدا ہوگا اسے عوام کی مرضی کے اصول کے تحت حل کیا جائے گا۔ پنڈت نہرو نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے خطاب میں لاررڈ مونٹ بیٹن کی مبہم اصطلاح کو استصواب رائے کا واضح نام دیا۔ شیخ عبداللہ نے الحاق کو عوامی تائید کا جواز فراہم تو کیا مگر وہ مسلسل کہتے رہے کہ الحاق عارضی ہے۔ کشمیری آج بھی پنڈت نہرو کے اقوال اور وعدوں کی چتا کو کاندھوں پر اُٹھائے پھر رہے ہیں مگر بھارت بطور ریاست ان اصولوں اور وعدوں سے انکاری ہوچکا ہے۔ کشمیریوں کا بھارت کے ساتھ یہی یک نکاتی جھگڑا ہے۔ وہ جناح کے اعلانات پر عمل درآمد نہیں چاہتے، کسی کشمیری لیڈر کے خیالات کو ماننے کا مطالبہ نہیں کرتے۔ وہ بھارت سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم اور جنگ آزادی کے بانی پنڈت نہرو کے ’’اقوالِ زریں‘‘ کی پاسداری چاہتے ہیں۔ کشمیر کا کوئی بھی مزاحمت پسند کسی گیلانی ڈاکٹرائن یا میرواعظ تھوریم اور یاسین فلاسفی کی بات کرتا ہے نہ جمال الدین افغانی کے پین اسلام ازم، علامہ اقبال کے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر، یا دوسرے کشمیری اور مسلم مشاہیر کے خیالات اور تصورات کے تحت کوئی مطالبہ نہیں کررہا ہے۔ وہ ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ نامی شہرہ آفاق خود نوشت کے مصنف کشمیر کو اپنی محبوبہ کہنے والے پنڈت نہرو کی تقریروں اور وعدوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔
وقت کے گھڑیال پر کشمیریوں کے جذبات کی سوئی 1948 کے پہلے یوم سیاہ سے 2013 تک انہی وعدوں پر اٹک کر رہ گئی ہے۔ بھلا نظریات کے اس تسلسل کو اس دھارے کو فوج کے ذریعے موڑا جا سکتا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں۔ پنڈت نہرو کے وعدے تاریخ کا ایسا قرض ہیں اور بوجھ ہیں جنہیں چکائے بغیر، اتارے بغیر۔ بھارت کو سکون وآرام حاصل نہیں ہوگا، سچ تو یہ ہے کہ آج دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت، دنیا کے سب سے بڑی جمہوریہ، مغرب کی پسندیدہ ترین ریاست، اسرائیل اور امریکا جیسے طاقتور ملکوں کی اسٹرٹیجک پارٹنر، معاشی آسودگی، سیاسی استحکام، داخلی امن وامان کی بے شمار منزلیں عبور کرنے، میزائلوں کا انبار لگانے کے باوجود پنڈت نہرو کے وعدوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی کشیدگی کی کلید کشمیر ہے اور کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رکھ کر دونوں ملکوں میں مثالی تعلقات قائم نہیں ہوسکتے اور مثالی تعلقات قائم نہ ہونے کا نقصان یہ ہے کہ نہ بھارت افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے معدنی ذخائر تک پہنچ سکتا ہے اور نہ مست ہرنی کی طرح سارک ممالک میں آزادانہ تجارت اور آمد ورفت کی چوکڑیاں بھر سکتا ہے۔ حد تو یہ اس عارضے کی وجہ سے وہ اپنے عالمی طنطنے اور قبولیت کے باوجود سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے سے بھی محروم ہے۔