بھارت کا جمہوری چہرہ

845

بھارت ایک ایسے وقت میں یوم جمہوریہ منارہا ہے، جب ایودھیا میں صدیوں سے قائم شہید بابری مسجد کی جگہ متنازع رام مندر کا افتتاح کیا جا چکا ہے۔ انتہا پسند ہندوتوا کے گٹھ جوڑ میں بدترین مسلم کش فسادات کے نتیجے میں دو ہزار مسلمان شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے، یہ جشن جمہوریت ایک ایسے وقت میں منایا جارہا ہے جب بھارتی حکومت کینیڈا، برطانیہ، امریکا میں سکھ رہنماؤں کو چن چن کر قتل کر رہی ہے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ کے قریب ہی بھارتی فوج کی کشمیر میں نہتے نوجوانوں، خواتین اور بچوں کو فائرنگ کر کے شہید کرنے کی خبریں بھی تواتر سے آ رہی ہیں۔ جب کہ پاکستان کے وزیر مذہبی امور نے مودی کو خطے کا نیتن یاہو قرار دے کر بالکل درست لقب سے نوازا ہے۔ اس منظر نامے میں گجرات کے قسائی کا لقب پانے والے نریندر مودی نے یوم جمہوریہ پر ایک مرتبہ پھر سر بازار یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیکولر بھارت اپنی تمام اقلیتوں کا محافظ و نگہبان ہے اور اس میں رہنے والے مسلمان، عیسائی، تامل اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھارتی پارلیمان کی تاریخ کی بدترین سچائی یہ بھی ہے کہ بھارتی پارلیمان میں پہلی بار کوئی مسلمان پارلیمنٹیرین نہیں ہے۔ مسلم لیڈر شپ نہیں۔ لیکن مسلم نسل کشی کے ذریعے لیڈر شپ تیار کی جاتی ہے۔ ہندوؤں کے ووٹ کے حصول کا ذریعہ مسلم دشمنی بنا دی گئی ہے۔
درحقیقت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مسلسل جمہوریت اور اکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا بھارت کی تاریخی روش ہے۔ ان متضاد رویوں نے بھارت کی سرزمین میں علٰیحدگی اور احتجاج کی تحریکوں کو ہمیشہ گرم رکھا ہے، یہ منافقانہ پالیسی ہمیشہ آگ میں تیل کا کام کرتی رہی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل 1937ء میں وائسرائے ہند لارڈ لنلیتھ گو (Linlithgow) نے جب ہندوستان میں وزارت سازی کا اعلان کیا اور مختلف صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہو گئیں تو ہندوؤں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ اب ہندوستان میں ہندوراج کی داغ بیل پڑچکی ہے چنانچہ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی ترنگے کو قومی جھنڈا اور بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیا اس ترانے کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے۔ جس کی بنیاد پر قائد اعظم نے ’’بندے ماترم‘‘ کو مسلمانوں کے خلاف نعرہ جنگ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے شرک کی بو آتی ہے اور لارڈ زِٹ لینڈ (Lord Zit land) نے کہا کہ یہ ترانہ نہیں اعلانِ جنگ ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں نے قومی تحریک چلانے کی خاطر وضع کیا تھا، یہ ترانہ ایک بنگالی بنکم چندر چیٹ جی کے ناول آنند مٹھ سے لیا گیا ہے اس ناول اور ترانے پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ترانہ مسلمانوں سے نجات اور نفرت پر منحصر ہے، جس میں بنگال پر سراج الدولہ کی حکومت کے خاتمے اور مرشد آباد کے نواب کو شکست دینے کی خاطر مسلمان حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہندو فوج کی تشکیل کی کہانی بیان کی گئی ہے، اس کے ساتھ ہی نام نہاد فارمولے کے تحت تمام قومیتوں کو جوڑنے اور اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کے لیے مشترکہ زبان ہندی ’’دیوناگری‘‘ رسم الخط کو تمام زبانوں پرفوقیت دیتے ہوئے عملاً رائج کر دیا گیا۔ یہ ایک تاریخی خاکہ تھا جس کی بنیاد جبر پر استوار کی گئی۔
آج بھی بھارت میں موجود مسلمان حکومتی استحصال کے باعث غربت، پسماندگی اور بیروزگاری کا بین ثبوت ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت سے لے کر گجرات اور احمد آباد میں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام اور اس پر حکومتی اداروں کی بے حسی بھارتی جمہوریت کا پردہ چاک کر رہی ہے کشمیر میں ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کے واقعات اور املاک کو تباہ و برباد کر کے کشمیریوں کا حق خود ارادیت کچل دیا گیا ہے۔ سنگینوں کے سائے میں انتخابات معمول کا حصہ ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اعداد و شمار کی رپورٹس پیش کرتے ہیں جن میں بھارت کے جبر و استبداد کی قلعی کھل جاتی ہے لیکن انہیں درخور اعتنا سمجھے بغیر بھارت انہیں بارہا مسترد کر چکا ہے۔
دیگر اقلیتوں عیسائی اور سکھ عوام بھی اس عتاب سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ گولڈن ٹیمپل اور چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کے خون سے ہولی کھیلنے جیسے لرزہ خیز واقعات نے بھارت کا دامن جمہوریت تار تار کر کے رکھ دیا ہے، یہی نہیں بھارت میں نچلی ذات کے ہندو بھی استبداد کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بے شمار نچلی ذات کے ہندو عیسائی ہو چکے ہیں۔ اونچی جاتی اور نچلی جاتی میں تفاوت و نفرت نے ان کے لیے عیسائی مذہب کے دروازے کھولے چنانچہ عیسائیوں کو بھی نابود کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مساجد کے ساتھ گرجا بھی گرائے جانے لگے جس پر مغرب میں کھلبلی مچ گئی۔
جمہوری آزادی کی یہ تو چند مثالیں ہیں۔ قائد اعظم نے گاندھی کی شخصیت کا گہرا تجزیہ پیش کیا۔ ’’6 اگست 45ء کے ممبئی کے جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جس حلیف سے پالا پڑا ہے وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے جب ان کے مفاد کا مطلب ہوتا ہے تو کہہ دیتے وہ محض انفرادی حیثیت میں ہیں کہ وہ کسی کے نمائندے نہیں، وہ تو کانگریس کے چار آنے کے رکن بھی نہیں ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے تو سارے ہندوستان کے نمائندے بن جاتے ہیں اور جب اور حربوں سے کام نہیں چلتا تو مرن برت رکھ لیتے ہیں جب کوئی دلیل نہیں بن پاتی تو اندرونی آواز کو بلا لیتے ہیں کہیے ایسے شخص سے کس طرح بات کر سکتے ہیں وہ تو ایک چیستان ہیں، معمہ ہیں‘‘۔ گویا ایک طرف ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ ہے تمام اقلیتوںکے حقوق کی بات ہے دوسری جانب متحدہ قومیت کا سراب ہے، جس کے امتزاج سے ایک ہندو تہذیب جنم دینے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا رہا ہے اور دوسری تمام قومیتوں کا استحصال اس کا بنیادی جز و قرار پایا ہے۔
بھارت کو سوچنا چاہیے کہ دنیا انقلابات زمانہ سے دو چار ہے جبر و استبداد بقا کا راستہ نہیں یہ بھارت کی اندرونی بنیادوں کو کبھی مستحکم ہونے نہیں دے گا بھارت کی ترقی و خوشحالی اور بھارت کا عالمی امیج اس کی اس پالیسی کے باعث متنازع بن چکا ہے اور اس کی آواز میں سب سے پہلے اس کے اپنے وجود میں سے اٹھ رہی ہیں۔ کشمیر کی تحریک آزادی گولیوں سے دبائی نہیں جا سکتی اس کے لیے بھارت کو حقیقی جمہوریت کا ثبوت پیش کرنا ہو گا حقائق سے چشم پوشی کے بجائے اپنے جمہوریت کے چہرے پر سے ان داغوں کو صاف کرنا ہو گا جنہوں نے ایک وسیع رقبہ رکھنے کے باوجود بھارت میں فوجی چھاؤنیوں کو جنم دیا ہے اور ان میں سب سے بڑی سب سے سلگتی ہوئی فوجی چھاؤنی کشمیر ہے!