بھارت کا دنیا کو دھوکا

887

۔26 جنوری بھارت میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن دنیا بھر میں بھارتی سرکار بڑے اہتمام سے یہ تقریب اپنے سفارت خانوں میں منا کر انہیں یہ دھوکہ دیتی ہے کہ ’’ہم ایک جمہوری ملک ہیں آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں‘‘، مگر یہ ایک کھلا اور بڑا دھوکا ہے جو بھارت دنیا کو دیتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت کا آئین جسے بھارتی ایک جمہوری آئین مانتے ہیں اس کے خالق ڈاکٹر امبیدکر تھے جو بھارتی تاریخ میں سب سے بڑے اچھوت رہنما مانے جاتے ہیں۔ انہیں آئین بنانے کے کچھ عرصہ بعد ہی احساس ہو گیا تھا کہ یہ جمہوری آئین اور جمہوری نظام صرف دکھاوا ہے۔ بھارت کے ہندو رہنما جن میں اکثریت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں یعنی اشرافیہ کی تھی کسی بھی سطح پر چھوٹے طبقوں، اقلیتوں ذاتوں اور اقوام کے لیے جمہوری طرز عمل اختیار نہیں کریں گے۔ بھارت میں انسانی، جمہوری اور اخلاقی سطح پر کوئی قاعدہ اور قانون بھارتی حکمرانوں پر لاگو نہیں ہو سکتا کہ قول و فعل میں بے حد تضاد ہے اور وہ سب کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بھارتی آئین بنانے والا یہ اچھوت رہنما 1957ء میں نا صرف کانگریس سے الگ ہو گیا بلکہ اس نے احتجاج کے طور پر ہندو دھرم سے بھی جان چھڑا لی اور بدھ مت قبول کیا اور اسی عقیدے پر اگلے جہان سدھارگئے۔ اگر غور کیا جائے تو اس بات سے بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا پول کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ جس ملک کا آئین بنانے والا اسے غیر جمہوری ملک قرار دیتا ہو وہاں چھوٹی ذاتوں، قوموں اور اقلیتی فرقوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ڈاکٹر امیبدکر کے خدشات کو درست ثابت کر رہا ہے۔
بھارت میں مسلمان اور کشمیری خاص طور پر بھارتی برہمنیت کے حامل حکمرانوں کے ہاتھوں مسلسل عذاب کا شکار ہیں۔ ان کو حقیقت میں کوئی جمہوری یا انسانی حقوق حاصل نہیں جو بھارت کے دوسرے ہندو شہریوں کو حاصل ہیں۔ حقیقت میں انہیں بھارت میں دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے اور انہیں مسلسل شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر انہیں مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان کی نسل کشی ایک مخصوص انداز میں کی جا رہی ہے۔ بھارتی مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں وہ مختلف علاقوں میں آباد 22 کروڑ کی آبادی ہیں جنہیں مٹانا بھارت کے لیے آسان نہیں۔ مگر اذان دینے، گائے کے ذبح اور مذہب کے نام پر قتل کر دیے جاتے ہیں ان کے گھر جلائے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کا دم خم ہر شعبہ زندگی میں قائم ہے۔ اس کے برعکس کشمیریوں کی حالت بہت پتلی ہے۔
1947ء میں بھارت نے فوج کشی کر کے زبردستی اس مسلم اکثریتی ریاست پر قبضہ کر لیا حالانکہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت اس ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ مگر مہاراجا کشمیر اور کانگریس کے ہندو رہنماؤں نے شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر ایسا ہونے نہیں دیا اس روز ِ سیاہ کا نتیجہ آج تک کشمیری بھگت رہے ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ کشمیری آج تک اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق اپنا حق خودارادیت مانگ رہے ہیں مگر بھارت نو لاکھ فوج کی مدد سے انہیں کچل رہا ہے۔ ایک لاکھ کشمیری بھارت سے نجات اور اپنی آزادی کی راہ میں قربان ہو چکے ہیں مگر بھارت کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق دینے کو تیار نہیں اُلٹا 2019ء کو بھارت کے عالمی قراردادوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کشمیریوں کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے اپنے اندر ضم کر کے اپنی ریاست قرار دیدیا۔ کیا یہ ایک جمہوری ملک کا خاصہ ہوتا ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت نے صرف دنیا کو دھوکا دینے کے لیے اپنے چہرے پر جمہوریت کا نقاب اوڑھا ہوا ہے ورنہ وہ ایک آمریت کا دیو استبداد ہے جو ایک کروڑ سے زیادہ کشمیری بچوں کا لہو پی رہا ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی 26 جنوری کو پوری ریاست جموں کشمیر میں بھارتی یوم جمہوریہ بطور یوم سیاہ منایا جا رہا۔ 5 اگست 2019ء کے بعد تو بھارت کو جمہوریہ کہلانے کا حق ہی نہیں اس موقع پر جموں و کشمیر کے علاوہ پاکستان اور بیرون ممالک میں آباد کشمیری اس موقع پر احتجاجی مظاہرے کریں گے اور مختلف تقریبات اور سیمیناروں میں بھارت کی جمہوریت کش اور ظالمانہ پالیسیوں کو بے نقاب کریں گے۔ اس موقع پر عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں سے وابستہ افراد بھی ان تقریبات میں شرکت کریں گے۔ افسوسناک امر یہ ہے عالمی ادارے اور تنظیمیں بھی بھارت کو کشمیر کے مسئلے اور بھارتی مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے جمہوری رویہ اپنانے پر آمادہ نہیں کر سکے۔ ایک بڑا ملک صرف طاقت کے بل بوتے پر ا گر کمزور طبقوں اور اقوام کی آزادی سلب کر کے بھی خود کو سب سے بڑا جمہوری ملک قرار دیتا ہے تو یہ ایک کھلا ڈھونگ ہے جو ملک اپنے شہریوں کو اپنے زیر تسلط علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں دے رہا وہ بھلا جمہوری عمل اور جمہوریت کا راگ کس منہ سے الاپ رہا ہے۔ 26 جنوری یوم سیاہ منا کر کشمیری کم از کم بھارت کا یہ مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تمام کشمیری ان کا تعلق خواہ کسی بھی جماعت سے ہو وہ ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر کے بھارتی ڈھونگ کو بے نقاب کرتے ہیں۔