سیاست کے فرعونوں کو شکست دینی ہوگی

679

آج کل الیکشن کی تیاریاں ہیں تمام پارٹیاں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ساتھ ساتھ لیڈروں کے بیانات بھی سْننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں، جو سب سے مزاحیہ بیان ہے وہ یہ کہ الیکشن شفاف ہونے چاہئیں آگر ایسا نہ ہوا تو جمہوریت کو نقصان پہنچے گا، یہ بیان وہ دے رہے ہیں، جو بے پیندے کے لوٹے ہیں، اپنے مفاد کے خاطر مختلف سیاسی جماعتوں میں لْڑھکتے رہتے ہیں جن کا جمہوریت سے اور شفاف الیکشن سے دور دور کوئی تعلق نہیں، نہ ہی پارٹی میں جمہوریت کا دور دور نشان ہے، ساٹھ سال سے لیکر ستر سال کی عمروں کے یہ سیاست دان اس کمال بہادری، ڈھٹائی اور بے شرمی سے بیان دیتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا گماں ہوتا ہے کہ پوری قوم کو یہ فواد چودھری سمجھتے ہیں۔ چالیس سال سے سیاست کرنے والے یہ سیاسی فرعون جو ہر الیکشن سے پہلے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرکے اْس گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، جو سب سے تیز دوڑ رہا ہو، کیا یہ گفتار کے، اپنے کردار کے، یا اپنی کارگردگی کے ایسے با صلاحیت سیاست دان ہیں جو عوام کے دلوں میں بستے ہیں اور عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر مسند اقتدار پر پہنچتے ہیں؟ جس کے باعث ان کو شفاف الیکشن درکار ہیں، کوئی ان سے پوچھے کہ جس ملک میں ایک معصوم بچہ بھی جانتا ہے کہ مسند ِ اقتدار پر بیٹھنے کے لیے کیا شفاف الیکشن ضروری ہیں یا پھر اْس غیبی طاقت کے جس کے مرہون منت الیکشن میں جیت مقدر بنتی ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ الیکشن ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا دن ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ پاکستان میں الیکشن کو جاگیرداروں، وڈیروں اور دولت مند طبقے نے برسوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے، اور سیاست دان صرف جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جبکہ 50 سال سے اس ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

الیکشن میں ایک ماہ سے کم کا وقت رہ گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا پر بیٹھے صحافی و دانشور جو اس الیکشن میں حصے لینے والی جماعتوں میں کس سیاندھی نفرت کرتے ہیں اور کس سے اندھی محبت کا دم بھرتے ہیں، اور جس سے محبت کرتے ہیں اس کو آسمان کی بلندی تک کیسے پہنچاتے ہیں، اور 25 کروڑ عوام کو کس حد تک گمراہ کرتے ہیں، جیسا کہ 2018 کے الیکشن میں کیا تھا، بعد اپنے تجزیے اور تبصروں پر قوم سے معافی مانگتے نظر آئے، دوسری طرف بلاول زرداری تیر سے شیر کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے جلسوں میں پی ٹی آئی کے بانی کی طرح بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں اور پرانے منجن کو نئی پیکنگ میں بیچنے میں مصروف ہیں، اپنے جلسوں میں 300 یونٹ بجلی فری دینے کا دعویٰ کرتے ہیں، جب ان سے پوچھا گیا آپ 300 یونٹ فری کیسے دیں گے تو ڈھٹائی سے کہتے ہیں کیا خواب دیکھنا چھوڑ دیں یہ ہیں وہ بے عمل اور منافق سیاستدان جنہوں نے عوام کو ٹرک کی بتی کی جگہ لگا رکھا ہے۔

میرے عزیز پڑھنے والوں آئیے 2024 کے الیکشن میں عہد کریں کے الیکشن سے قبل اپنے ملک میں بسنے والے چند مخصوص ٹولوں اور بے شرم بے حیا حکمرانوں اور ان کے بے ضمیر درباریوں سے جن کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کو سوائے رسوائی اور ذلت کے کچھ نہ مل سکا ان سے نجات دلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور اپنی نئی نسل کو ان چور اور کرپٹ حکمرانوں کے چنگل سے نکالنے میں اپنا دینی اور ملکی فریضہ ادا کریں۔ اور اپنی نئی نسل کو ووٹ کی حقیقت اور اس کے صحیح استعمال سے آگاہ کریں اس ملک پر قابض سیاسی جماعتوں جو برسوں سے اس ملک میں حکمرانی کر رہی ہیں اور ملکی خزانے کو اپنے باپ کی میراث سمجھ کر لْوٹ رہی ہیں ان کے مکروہ چہرے اور ان کی کارگردگی سے آگاہ کریں۔ تاکہ ماضی کے غلط فیصلوں سے وہ سبق حاصل کرسکیں، یاد رکھیے جو قومیں اپنے ماضی سے سبق حاصل کرتی ہیں وہی ترقی کے منزلیں طے کرتی ہیں۔ میرے عزیز دوستوں اس آنے والے الیکشن میں ہم کو یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اس بار اپنے ووٹ کا استعمال کرنے سے پہلے صوبائیت رشتہ داری ذات برادری کو معیارِ انتخاب نہیں بنائیں گے۔ ہمارے لیے صرف وہی شخص قابل احترام ہو گا جو بے شک غریب ہو مگر امانت دار ہو، با عمل ہو جس کے ہاتھ ملک کی لْوٹی ہوئی دولت سے رنگے نہ ہوں جس کا ماضی پاک ہو اور جو خوف خْدا رکھتا ہو، جو اپنے منشور میں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی بات کرتا ہو، صدیوں سے یہ ملک ایک ماتم کدہ بنا ہوا ہے کبھی بجلی کے نام پر تو کہیں روٹی کے نام پر، تو کہیں گیس اور پانی کی عدم فراہمی، بے روزگاری کا ایک بڑھتا ہوا سمندر ہے جس کی وجہ سے نوجوان طبقہ احساس محرومی کا شکار ہے، برسوں سے اس ملک میں حکمرانی کرنے والے ایک دوسرے کی باریاں لگاتے ہیں، ایک آتا ہے حکمرانی کرتا ہے لندن چلا جاتا ہے دوسرا آتا ہے حکمرانی کرتا ہے دبئی چلا جاتا ہے تیسرا آیا کہ ان دونوں سے ملک کی دولت واپس لونگا، مگر خود توشہ خانہ کی گھڑی کی چوری میں آڈیالہ چلا گیا۔

یاد رکھیں جس طرح مردے کو پتا نہیں چلتا کہ اس کی دولت پر کون قبضہ کرے گا اس طرح مردہ قوموں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ کون ان کے حق کا ضامن ہے کون ان کے حق پر ڈاکہ ڈالے گا، ووٹ کا استعمال کرتے وقت آنکھیں کھولیں اور اپنے ضمیر سے پوچھیں وہ کون لوگ ہیں جو اس ملک میں ہر مشکل وقت میں حکومت وقت سے زیادہ عوام کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں سیلاب ہو، زلزلہ ہو، کورونا ہو، بجلی کا مسئلہ ہو، گیس کا مسئلہ ہو، تعلیمی نظام کا مسئلہ ہو، غزہ میں اپنے بھائیوں کی امداد کا مسئلہ ہو سب سے آگے نظر آتے ہیں، کل ہمیں بارگاہ ربّ العزت میں پیش ہونا ہو گا تو ہم سر اْٹھا کہ یہ کہہ سکیں گے مالک میں نے تیری زمین پے جو سب سے با کردار اور با عمل تھا اس کو ووٹ دیا، اْس کی جیت یا ہار تیری رضا ہے، میں اپنے پچھلے فیصلوں پر معافی کا طلب گار ہوں، میری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو ان کرپٹ اور بے دین سیاستدانوں کے شر سے محفوط فرما اور اس ملک میں اْن لوگوں کو حکمرانی نصیب فرما جو تیرے دین کے نفاذ کے لیے عمل پیرا ہیں۔ آمین۔ جب اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہوں تو سر اْٹھا کر یہ کہہ سکیں مالک۔ میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو اچھے اور برے کی تمیز سے آگاہ کردیا تھا اور میں اپنے پچھلے غلط فیصلوں پر معافی کا طلب گار ہوں اور میری انے والی نسلوں کو ان کرپٹ سیاستدانوں کے شر سے محفوظ رکھ۔ آمین