پیپلز پارٹی کے وارث چیئرمین بلاول زرداری اپنی پارٹی کے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک انقلابی پروگرام ہے اور اس کو دنیا مانتی ہے ہم اس کو اورآگے لے جائیں گے۔ ہاری کارڈ، کسان کارڑ دیں گے، تمام مزدورں کو مزدور کارڈ دیں گے، تمام مزدوروں کو مزدور کارڈ میں رجسٹرڈ کرائیں گے۔ غربت کے خاتمے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو اور بہت آگے تک لے جائیں گے۔ ہمیں پوری دنیا کا تو علم نہیں مگر یہ بتاتے چلیں کہ اپنے برادر اسلامی ملک بنگلا دیش کی پارلیمنٹ نے ایسی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے ملک کی خواتین کو بھکاری نہیں بناسکتے بلکہ ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کریں گے اورآج یہ عالم ہے کہ بنگلا دیش میں 25 لاکھ خواتین گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کر کے باعزت روزی روٹی کما رہی ہیں اور ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تقریباً 60 لاکھ خواتین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے وظیفہ لے رہی ہیں۔ بلاول زرداری کہتے ہیں کہ ہم اس کو اور آگے لے جائیں گے اور غربت مٹاؤ پروگرام بھی جاری کریں گے۔ ہم بلاول زرداری سے پوچھتے ہیں کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام تو جولائی 2008 میں شروع کیا گیا تھا اتنے برس میں آپ نے کتنی غربت دور کردی آپ کہتے ہیں کہ ہم مزدوروں کو مزدور کارڈ دیں گے اور تمام مزدوروں کو اس میں رجسٹرڈ کرائیں گے تو اطلاعاً عرض ہے کہ آپ کے نانا محترم ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کی فلاح بہبود کے لیے ای او بی آئی پروگرام شروع کیا تھا یعنی بعد از ملازمت پنشن کی سہولت جس میں تمام مزدوروں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا تھا آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ عمل شفاف طریقے سے ہو بھی رہا ہے؟؟ ہماری ناقص رائے میں اس پروگرام کو تو 2019 میں ہی ختم کر دینا چاہیے تھا جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ 08 لاکھ 20 ہزار غیر مستحق افراد اس پروگرام سے مستفیض ہو رہے ہیں ان 08 لاکھ 20 ہزار غیر مستحق افراد میں سے ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین شامل تھے مزید گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کے 2543 سرکاری افسران بھی اس بہتی گنگا سے اشنان کر رہے تھے اور اس 2543 افراد میں سے بینظیر کے دیس سندھ کے 1122 افراد تھے ان غیر مستحق افراد میں ارکان قومی وصوبائی اسمبلی نے بھی جگہ بنا رکھی تھی اور ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ اس وظیفے سے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی صاحبزادی سندھ کی وزیر اطلاعات نفیسہ شاہ بھی مستفیض ہو رہی تھیں۔
اس کی ایک اور نظیر یہ بھی ہے کہ 2019 ہی میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی تخفیف غربت و سماجی ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 19 ارب روپے غیر مستحق افراد میں تقسیم کیے گئے ہیں رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ یہ 19 ارب 35 ہزار روپے ایک لاکھ 43 ہزار غیر مستحق افراد میں تقسیم کیے گئے جس میں گریڈ 17 اور اس کے اوپر کے 2500 افسران بھی شامل تھے غیر مستحق افراد میں رقم بانٹنے کا یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جو 2019 میں پالیسی ختم ہونے پر ہی اختتام پزیر ہوا اتنی کرپشن اور لوٹ مار وہ بھی بینظیر کے اپنے جیالوں کے ہاتھوں ہو رہی تھی اس کو جواز بنا کر یہ سلسلہ ختم کیا جا سکتا تھا مگر عمران خان کے حواریوں نے یہ بہتر جانا کہ ہم بھی اپنے کھلاڑیوں کو یہ موقع فراہم کریں چنانچہ احساس پروگرام جاری کر دیا گیا کہ کھلاڑیوں کو بھی جیالوں کی طرح کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے۔ اور اب کسی میں ہمت نہیں کہ اس سلسلے کو ختم کر سکے۔
ہم یہاں پر صرف ایک صاحب نظر کا مشورہ تحریر کرتے ہیں موصوف فرماتے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ صرف ایک ارب روپے میں ایک گارمنٹ فیکٹری لگائی جا سکتی ہے اس طرح 450 ارب روپے میں 450 فیکٹریاں ملک کے طول و عرض میں لگائی جا سکتی ہیں جس سے ناصرف ملک ترقی کرے گا بلکہ غربت دور ہوگی اور لاکھوں خواتین کو عزت نفس مجروح کیے بغیر روزگار مہیا ہو جائے گا مگر یہ کرے گا کون؟ اختتام میں ہم پھر ایک صاحب نظر کا ایک ٹویٹ درج کر رہے ہیں فرماتے ہیں جس ملک کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 36 ارب اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 450 ارب رکھا جائے وہاں سائنس دان نہیں بھکاری ہی پیدا ہوں گے۔