اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی توشہ خانہ اور ایک سو نوے ملین پاونڈ کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بانی پی ٹی آئی کی توشہ خانہ اور 190 ملین پاونڈ کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سماعت کی۔بانی پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین اور نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور نیب اسپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز ایڈوکیٹ عدالت پیش ہوئے، گزشتہ روز فریقین کے وکلا کے دلائل جاری رہے تھے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، وکیل شعیب شاہین نے مقف اپنایا کہ نیب کی نئی ترمیم کے بعد ججز کی تقرری کرنیوالی اتھارٹی تبدیل ہوچکی ہے، پرانے قانون کے مطابق صدر مملکت کے پاس تقرری کا اختیار تھا، اب وفاقی حکومت کے پاس ہے، ایک کیس میں 28نومبر کو نوٹیفکیشن جاری ہوا جب کہ ریفرنس 20دسمبر کو دائر ہوا، دوسرے کیس میں 14نومبر کو نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ریفرنس چار دسمبر کو دائر ہوا۔امجد پرویز نے کہا کہ 13نومبر کو القادر ٹرسٹ کیس میں بانی تحریک انصاف کی گرفتاری ڈالی گئی،
شعیب شاہین نے استدلال کیا کہ میں صرف قانونی نکات تک محدود رہوں گا، زیادہ تفصیل میں نہیں جاوں گا، نوٹیفیکیشن اور سمری کے عمل کو دیکھیں تو غیر ضروری جلد بازی کا عنصر واضح ہے۔شعیب شاہین نے کہا کہ 13 نومبر کو نیب نے درخواست کی، ایک ہی دن میں سمری بھی تیار ہوگئی اور کابینہ منظوری بھی، ملک میں باقی سارے کام بھی اتنا تیزی سے ہوتے تو کئی مسائل حل ہوجاتے ، کہا جارہا ہے کہ سب کو جانے دیا جاتا ہے، مگر میرے ساتھ میرے معاون وکیل تھے ان کو نہیں جانے دیا، وکلا کا وکالت نامہ اور نام موجود ہوتے لسٹ میں مگر نہیں جانے دیا جاتا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری اکثر فائلیں بھی ایک دن بعد واپس کی جاتی ہیں، عدالت کو قانونی نکات سے بتاوں گا کہ سیکشن 352 کی ضرورت کیوں ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ عدالت میں پبلک کی رسائی ہے، سیکشن 352 کے حوالے سے کچھ عدالتی فیصلے پڑھ دیتا ہوں۔ایڈوکیٹ شیعب شاہین نے مختلف عدالتی فیصلے پڑھتے ہوئے استدلال کیا کہ ان ساری ججمنٹس کے مطابق اوپن ٹرائل ہونا چاہیے،
انہوں نے بتایا کہ پبلک کو جانے کی اجازت ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا، اوپن ٹرائل کو بند کمرے میں کرکے کہیں ہوگیا اوپن، ریفرنس کے بغیر آرڈر لیا ہی نہیں جا سکتا۔ایڈوکیٹ شعیب شاہین نے آصف زرداری کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مقف اختیار کیا کہ ہم صرف اپنے موکل کے دوسرے کیس کی ججمنٹ کا ذکر کریں گے،16 بی سیکشن 9 ٹو ایک ہی ہیں، کورٹ کی جگہ اور جیل ٹرائل دو مختلف چیزیں ہیں، جج کے مشورے کے بعد نوٹیفیکیشن کرنا ہوتا ہے، متعلقہ جج سب کام چھوڑ کر اس وقت صرف جیل میں سماعت کررہے ہیں۔شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب کے ایک کیس میں ٹرائل شروع ہوچکا، ایک میں فرد جرم عائد ہونی ہے، سائفر کیس میں متعلقہ جج نے حکومت کو جیل ٹرائل کے لیے خط بھی لکھا تھا، ہائی کورٹ نے اس کے باوجود ٹرائل کالعدم قرار دیا کیونکہ جوڈیشل آرڈر موجود نہیں تھا، اس کیس میں تو متعلقہ جج کی طرف سے کوئی خط بھی نہیں ہے۔
نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ چیئرمین نیب نے بانی پی ٹی آئی کے القادر ٹرسٹ کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے، 9 مئی 2023 کو بانی پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا گیا، 10 مئی کو احتساب عدالت کے سامنے پیش کرکے 8 دن کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ توشہ خانہ کیس کے لیے نیب کی جانب سے وفاقی کابینہ کو خط لکھا گیا، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا، 28 نومبر کو توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے جیل سماعت نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا، بانی پی ٹی آئی سابق وزیر اعظم ہیں، سیکیورٹی ایشوز کی وجہ سے جیل سماعت کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔امجد پرویز ایڈوکیٹ نے آصف علی زرداری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی اور انڈین سپریم کورٹ کا حوالہ بھی دوں گا، انہوں نے جیل ٹرائل سے متعلق 1931 کے کیس کا حوالہ دیا، 2 رکنی بنچ کا حالیہ فیصلہ مختلف گرانڈز پر ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آج عدالت کہے کہ باقی ٹرائل جوڈیشل کمپلیکس میں کرنا ہے تو کیا عدالت کو اختیار ہے ؟ امجد پرویز نے کہا کہ بالکل عدالت کو اختیار ہے وہ کسی بھی اسٹیج پر یہ فیصلہ کرسکتی ہے۔امجد پرویز نے اپنے دلائل کی سپورٹ میں 1931بمبئی کورٹ کا فیصلہ پیش کرتے ہوئے استدلال کیا کہ اس فیصلے کی تین لائنوں میں موجودہ کیس کے تمام سوالات کا جواب ہے، جب ایک بار عدالت کے بیٹھنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تو دوسرے کسی آرڈر کی ضرورت نہیں، شعیب شاہین نے جو ججمنٹس پیش کیں ان میں کیسز میں مشترکہ معاملہ کوئی بھی نہیں ہے۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے آرڈر جاری کیا ان کے پاس اختیار نہیں ہے کہ کون کون ٹرائل میں جاسکتا۔نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ قانونی پہلوں کے مطابق ٹرائل میں ملزم کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔بانی چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین نے جوابی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ لب لباب یہ ہے کہ پراسس ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے، ٹرائل کورٹ نے طے کرنا ہے ٹرائل جیل میں ہو گا یا نہیں، ٹرائل کورٹ کی جگہ کا انتخاب بھی ٹرائل کورٹ طے کرے گی، ہم یہ نہیں کہتے جیل میں ٹرائل نہیں ہو سکتا لیکن پراسس ٹرائل کورٹ نے پورا کرنا ہے۔
عدالت عالیہ نے فریقین کے دلائل سے سننے کے بعد نیب کیسز میں جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔واضح رہے کہ توشہ خانہ کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی پر 9 جنوری کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
راولپنڈی کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کی تھی، عمران خان اور بشری بی بی اپنے وکلا کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے ملزمان کو کمرہ عدالت میں چارج شیٹ پڑھ کر سنائی تھی، چارج شیٹ سننے کے بعد ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کردیا تھا۔