الیکشن لڑنے اور جیتنے کے حربے؟؟

875

پی پی پی نے اقتدار کی کلید اس روایت کو جانا اور اقتدار میں اس حربے کو استعمال کیا اور سیاسی فوائد سمیٹے، معاشرے کے مزاج کو بہرہ مند کیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ میرے بعد جتنے بھی فتنے ہوں گے اُن میں سب سے بڑا فتنہ یہ ہوگا کہ عورتوں کو فتنے کے طور پر استعمال کیا جائے گا (بخاری) اب اس فتنہ کا دور دورہ ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی بڑھ کر ہیں، جمہوریت کے نام پر نظام میں عورت جس کی شریعت میں گواہی نصف ہے اُس کے ووٹ کو مرد کے برابر کرکے ایک فتنہ کے طور پر مروج کیا گیا۔ آصف علی زرداری نے اپنے دور حکمرانی میں اس قول صادق کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے خاص عورتوں کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اجرا کرکے ملک کی بیش تر آبادی اور صوبہ سندھ کی تقریباً نصف خواتین آبادی کو اس چارے سے شکار کرلیا اور سیاسی مخالفین کو ہر انتخابی مرحلہ میں ناک آئوٹ کرنے کا سامان کردیا۔ اب 2024ء کے انتخابات میں سب سے بڑا چیلنج جس سندھ میں پی پی مخالفین کے لیے اندرون سندھ میں ہے تو وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت عورتوں سے ہے۔ پی پی پی نے جانا کہ شہروں کا شعور جو مسلمہ ہے جس کی نشاندہی قرآن میں یوں کی گئی ہے اور آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا بھیجے سب ہی شہر کے رہنے والے مرد تھے جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے (سورۃ یوسف) اس کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ ایک پالیسی کے طور پر شہری آبادی کے علاقوں میں کٹوتی کرکے اُن کے ووٹوں کی قوت کو کمزور کیا گیا اور دیہی آبادی جن کے لیے قرآن کی گواہی ہے کہ جو دیہاتی (منافق) ہیں وہ کفر اور منافقت میں زیادہ سخت ہیں اور دوسروں سے زیادہ اسی لائن میں کہ اس دین کے احکام سے ناواقف رہیں جو اللہ اپنے رسولؐ پر اتارا ہے۔ اللہ علم کا بھی مالک ہے۔ (سورہ توبہ) کو اپنا محور سیاست بنالیا اور جہاں نوٹوں اور نعروں سے سیاست چمکانا آسان تر ہے۔

گائوں کا وڈیرہ ووٹرز کو فروخت کرتا ہے اور حکمراں پارٹی میں قبولیت بھی پاتا ہے۔ اندرون سندھ کی سیاست سے واقف نے بتایا کہ 2018 کے انتخابی مرحلہ میں جماعت اسلامی سکرنڈ کی ٹیم دریا کے کنارے پیر صاحب کے حضور ایک جیپ میں سوار ہو کر پہنچی اور مدعا بیان کیا تو پیر صاحب کا قہقہہ بلند ہوا اور کہا کہ ’’مولویوں‘‘ سندھ میں انتخاب لڑنے اور جیتنے کے لیے 3 چیزیں لازمی پاس ہوں جب آپ ووٹ کے لیے ٹیکس، نوٹوں سے بھری ہوئی بوری، بندوق لوڈ اور قرآن پاک معطر، نوٹوں سے خریداری ووٹوں کی ہو، بندوق کی دھمکی ہو اور قرآن کا واسطہ ہو تو پھر ووٹ ملتے ہیں۔ باتوں نصیحتوں سے نہیں، تم نیک صالح اچھے ہو، تم روایتی مولوی امیدوار کی طرح قرآن کے واسطے کو ووٹ خاطر استعمال کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ نوٹوں کی برسات نہیں، بندوق سے دھمکانا تمہارا کام نہیں، ووٹوں کے حصول کا سازو سامان نہیں، ویسے بھی تم ہمارے کام کے نہیں، ہمارے جائز ناجائز سو کام ہوتے ہیں ہم جیتنے والے سے لیتے ہیں ہم ان کے غیظ و غضب سے بچنے کا سامان، افسران ان مٹھی میں ہوتے ہیں۔ رہزن ان کا چلم بھرتے ہیں جو کوئی ہمت کرکے ضمیر کی آواز پر ووٹ دے تو پھر دوسرا کوئی چارہ کار نہیں کہ گائوں چھوڑ دے، صوبہ میں ان کی حکومت آجائے تو صوبہ اور ملک میں حکومت ہو تو ملک تک چھوڑنا پڑتا ہے، کہیں بھی داد فریاد نہیں سنی جاتی۔

پی پی پی نے ٹکٹ فروخت کرکے اربوں روپے جمع کرلیے ہیں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ہتھیار ان کے پاس ہے۔ جو سندھ میں حکومت پاکستان کے نام کے بجائے پی پی پی کی محترم بے نظیر آباد سے منسوب ہونے کی وجہ سے حکومت کی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی امداد سمجھی جاتی ہے۔ ان دو میں ان کے مقابل کوئی سیاسی جماعت نہیں، رہی جمعیت علمائِ اسلام جو اپنے انتخابی نشان کتاب کو قرآن سے قرار دے کر اس کو ووٹ دینے بتارہی ہے مگر بات بن کر نہیں دے پارہی ہے۔ جماعت اسلامی خدمات گنوا کر ووٹ بینک رابطہ عوام کو بہتر بنارہی ہے۔ سوگولڈ اینڈ گن میں پی پی پی کا پلڑا بھاری ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ کبھی چیونٹی بھی ہاتھی کو گرا دیتی ہے۔ فرمان ربی کا مفہوم ہے: ’’وہ اپنی چال چلتے ہیں اللہ اپنی چال چلتا ہے اور اللہ کی چال ہی غالب ہونے کے لیے ہے۔ مایوسی گناہ ہے‘‘۔ سندھ کا ووٹرز گولڈ اینڈ گن سے یرغمال ہے تو پھر آزادانہ، منصفانہ انتخاب کیونکر! پندرہ سالہ اقتدار سندھ میں پی پی پی نے بیوروکریسی کو اپنے حمایتیوں سے بھر دیا ہے جو ان کا دم بھرتی ہے، اشارہ پر چلتی ہے، مزے لوٹتی ہے، معارف اقتدار بنتی ہے۔ یہ نکتہ اور فرمان ربی قابل غور و فکر ہے کہ جن لوگوں نے شہروں میں خدائی احکامات کو توڑا اور معاشرے کو فاسد و ناپاک کیا اللہ نے ان کو کوڑوں سے پیٹا، یاد رکھو اللہ بدکاروں کی گھات میں رہتا ہے۔ (سورۃ الفجر) شہروں میں یہ دور بھی گزر گیا۔ ربّ کی گھات سے وہ بچ نہ سکے جنہوں نے شہروں میں فرعون راج قائم کر رکھا تھا اب خوشگوار جھونکا بلدیاتی انتخابات میں کراچی میں دیکھنے کو آیا ہے وہ اللہ کرے برقرار رہے۔ اندرون سندھ میں تبدیلی ہنوز دل دوراست کی بات ہے جو جہد مسلسل کے ساتھ فکری غسل کی متقاضی ہے۔