پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، یہی ریاست کا آئینی نام ہے، یہ ملک کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، نعرہ یہی تھا کہ آزاد مسلم ملک میں مسلمان اور اس میں بسنے والی تمام اقلیتیں، آزادی سے اپنے مذہبی ایام اور رسوم ادا کریں گی۔ 76 سال ہو چکے ہیں ریاست کے قیام کو، جمعہ کی نماز ہو یا عید کا تہوار، ہماری مساجد کے باہر پولیس سیکورٹی کی ڈیوٹی دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ملک کی کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے ملک میں اس منظر کو ہٹانے کی سنجیدہ کوشش کی ہو؟ آج پھر ملک میں انتخابات کی گہما گہمی ہے، اور افواہیں بھی ہیں کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں گے۔ یہ انتخابات دھیرے دھیرے اپنے پولنگ ڈے کی جانب بڑھ رہے ہیں، انتخابات ہو بھی جائیں گے، کیا ضمانت ہے کہ سیاسی جماعتیں جس نظام کے قیام اور پارلیمنٹ میں جانے کے لیے بے تاب ہیں، اس کے خلاف ہی جلد سڑکوں پر نہیں ہوں گی؟ سیاسی جماعتیں کیوں بے وقت کی راگنی کے لیے پارلیمنٹ اور حکومت کے خلاف سڑکوں پر آجاتی ہیں؟ کوئی ہے جو بتا سکے۔
الیکشن کمیشن میں کم و بیش دو سو جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، مگر انتخابی مہم میں شریک درجن بھر سیاسی جماعتوں کے نام سامنے ہیں، باقی کیا ہیں؟ یہ سب کچھ ملک میں معاشرے اور عوام کی تقسیم کا باعث نہیں ہیں؟ کیا محض کاغذوں میں پڑی ہوئی سیاسی جماعتیں بھی اس ملک کے مفاد میں ہیں؟ کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوجائیں، بہترین منشور لائیں، عوام کی بے مثال راہنمائی کریں اور اس ملک میں ووٹ کی طاقت سے اقتدار پاکر اسے اندرونی سلامتی کی معراج پر لے جائیں اور دنیا میں اور اس خطہ میں اسے ہنر مند، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ملک بنائیں، ذرا جائزہ تو لیا جائے ہمارے ملک میں ڈیڑھ اینٹ کی کتنی سیاسی جماعتیں ہیں؟ یہ بہت سنجیدہ سوال ہے اسے قابل غور ہونا چاہیے۔
حالیہ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے گی اُسے کیا کیا چیلنجز ہیں یہ کبھی کسی نے سوچا؟ اقتدار کی سب کو پڑی ہوئی ہے پھر کہیں گے اقتدار ملا اختیار نہیں ملا، کام نہ کرنے کا یہ بہترین بہانہ ہے، سیدھا سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ ملک کے مسائل کا حل کسی ایک سیاسی جماعت کے بس میں نہیں، یہ مسائل سب مل کر حل کریں گے تو حل ہوں گے ورنہ نہیں۔ دنیا میں اگر ہم مسلم دنیا کا ہی جائزہ لیں تو کسی ایک کا بھی نام لیے بغیر ہمیں ہر مسلم ملک اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے نیشنلسٹ ملک دکھائی دیتا ہے، ہر مسلم ملک یہ سوچتا ہے کہ سب سے پہلے اسے اپنی سلامتی اور معیشت مضبوط اور یقینی بنانی ہے، دوسروں کے لیے بعد میں سوچنا ہے، او آئی سی کیوں ایک فعال تنظیم نہیں بن سکی اس لیے کہ ہر مسلم ملک پہلے اپنا سوچتا ہے کہ اسے کیا ملے گا… اگر او آئی سی ایسے سوچتی ہے تو پھر پاکستان بھی تو اس تنظیم کا رکن ملک ہے ہماری سیاسی جماعتیں نیشنلسٹ کیوں نہیں ہیں، ہم قومی اتحاد کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟ اگر ہمارا ملک’’ ایک‘‘ ہوتا تو آج بھارت میں جرأت نہ ہوتی کہ وہ مشرقی پاکستان کے لیے سولہ دسمبر اور کشمیر کے لیے پانچ اگست جیسا فیصلہ کرتا، ہم چونکہ ایک نہیںہیں لہٰذا ہمارا دشمن کام دکھاتا رہا۔
اس وقت ملک میں ووٹرز کی تعداد کم و بیش بارہ کروڑ ہے، ان میں نصف جن کی عمریں بیس سے پینتیس سال کے درمیان ہیں، گزشتہ سال کوئی آٹھ لاکھ نوجوان روز گار کے لیے ملک چھوڑ گئے ہیں، کسی نے سوچا کہ ہماری کریم کیوں ملک سے باہر جارہی ہے؟ سب کو یہی پڑی ہے کہ بس کرسی اسے مل جائے… کرسی لینے کے بھی تقاضے ہیں، سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھ لیے جائیں، کس سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بیرون ملک جانے والی معاشرے کی کریم واپس لائے گی اور اسے یہاں اپنے ملک میں اس کی صلاحیت اور تعلیم کے مطابق باعزت روزگار دے گی، انتخابی مہم ہی دیکھ لیجیے، صرف تقریری مقابلے ہورہے ہیں اور جگت بازی ہے، اور صرف میں میں ہورہی ہے، پاکستان کے سمجھ دار شہری بہت پریشان اور بے چین ہیں افسردہ بھی ہیں اور خوفزدہ بھی ان کے نزدیک صورتحال مزید الجھتی جا رہی ہے۔ ذرا سوچیے کہ ایک جانب یہ منظر کہ گزشتہ سال آٹھ لاکھ پڑھے لکھے نوجوان روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ گئے، اور دوسری جانب پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ سندھ میں 70 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ خیبر پختون خوا میں 36 لاکھ سے زائد بچے اور بلوچستان میں 31 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اسلام آباد میں تقریباً 80 ہزار بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اسکول جانے کی عمر کے 39 فی صد بچے اس وقت اسکول سے باہر ہیں، کہیں کہیں یہ تعداد60 فی صد کو چھو رہی ہے، پڑے لکھے نوجوان ملک چھوڑ جائیں تو اسکولز سے باہر رہنے والی یہ غیر ہنر مند نسل اس ملک کے کس کام آئے گی… کیا ہم نے کبھی سوچا؟