’’جنرل‘‘ الیکشن

1052

آزادی حاصل ہونے کے ستائیس سال بعد پاکستان میں پہلے ’’جنرل‘‘ الیکشن جنرل یحییٰ خان نے کروائے۔ جس میں دو سیاستدانوں نے جنرل کے زیرسایہ ملک کو ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کر لیا اور اس رضامندانہ خونریز تقسیم کے بعد جنرل کو آرام فرمانے کے لیے گھر بھیج دیا گیا۔ یاد آیا کہ پاکستان میں اسی جنرل کے دور میں ایک ’’جنرل رانی‘‘ ہوا کرتی تھی جو ’’بڑے گوشت‘‘ کا کاروبار کرتی تھی۔ اس جنرل کے فوراً بعد دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا تھا۔ اس جنرل الیکشن کے بعد تقریباً ہر الیکشن بالواسطہ یا بلاواسطہ جنرل الیکشن ہی ہوا۔ جنرل ضیاء چونکہ ایک خدا ترس موحد مومن جنرل تھا تو اس کے دور میں گروہ بندی اور خرافات سے بچنے کے لیے ’’نظریہ توحید‘‘ کے تحت ’’واحد امیدواری‘‘ ریفرنڈم کروایا گیا، جس میں خود منکسر المزاج جنرل ہی جنرل ریفرنڈم کا واحد جنرل امیدار تھا۔ حیرت ہے کہ وہ واحد جنرل امیدوار تن تنہا ریفرنڈم جیت بھی گیا۔ ریفرنڈم کے بعد پھر غیر جماعتی الیکشن بھی کروائے گئے۔ یہ جنرل بہت دور اندیش تھا۔ اس کو جمہوریت سے بھی خاصا شغف تھا۔ اس لیے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنے جمہوری سیاسی وارث کے طور پر ایک ’’بھولے‘‘ باو جی کو تیار کیا اور اس کے لیے اور اس کے پورے ٹبر کے لیے رہتی نسل تک ’’جنرل‘‘ الیکشن میں کامیابیوں کا انتظام کرگیا اور تعویذ بھی دے گیا۔ اسی انتظام اور دعا کا نتیجہ ہے کہ بھولا ہر ’’بیماری‘‘ سے ’’شفایاب نکل کر لوٹتا‘‘ ہے اور جنرل الیکشن میں سرخرو کروا دیا جاتا ہے۔ بھولے کا خولیا مخولیا چھوٹا بھائی، درویش بے پراپرٹی بیٹی، خدمت گزار بھتیجے، اور ٹبری معاشیات کے ماہر رشتہ دار اور قریبی ’’عقربا‘‘ بھی صلہ رحمی کی وجہ سے خزانے اور جنرل الیکشن سے خوب مستفید ہوتے ہیں۔ مرد مومن کے غیر جماعتی جنرل الیکشن کے بعد تو پھر تقریباً ہم ’’جنرل‘‘ الیکشن کے عادی ہی ہوگئے۔ مرد حق کے وارث جنرل مشرف کے جنرل الیکشن میں تو عجوبے رقم ہوئے۔ ایک بینکر جس نے عمر بھر تھرپارکر کبھی دیکھا نہ سنا ہوگا، وہ وہاں کے خصوصی ’’جنرل‘‘ الیکشن میں نوے فی صد سے زائد ووٹ لے کر ملک خداداد کا وزیراعظم بنا۔ اس روشن خیال جنرل کے دور میں جنرل الیکشن میں کراچی، حیدرآباد میں منتخب کروائے جانے والے مقبول نمائندوں کے انتخابی نتیجے بیلٹ بکسوں پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ خلائی ووٹ بہت اہم ہوتے تھے۔ دیگر کرامات کے علاوہ چالیس چالیس اور اسی اسی گز کے گھروں میں رہنے والے آٹھ آٹھ سو ’’کھلائی‘‘ ووٹر اور چریے، بھولے، لنگڑے کارکن الیکشن رزلٹ میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ جنرل الیکشن کے فیض کے طفیل 2018 میں انتخابی ہوائیں ہی تبدیل ہوگئی تھیں۔ زندہ ’’جاوید‘‘ روحانی قوتوں نے تبدیلی کو قبولیت بخشی۔ تبدیلی کی گاڑی سرپٹ دوڑ رہی تھی۔ اچانک تبدیلی کی گاڑی کے ڈرائیور کے سماجی لائسنس (نکاح نامے) میں کچھ غلطی نکل آئی۔ اس وقت اس غلطی میں اصلاح کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ ہوسکتا ہے اس میں وقت لگے اور یہ اصلاح اب اگلے جنرل الیکشن تک درست ہوسکے۔ تبدیلی کی گاڑی کے عملے کے کافی ارکان اور سواریوں کو دوسری نئی پرانی گاڑیوں میں بٹھادیا گیا ہے۔

فروری کی 8 تاریخ کو ایک دفعہ پھر وطن عزیز کے ووٹرز جنرل الیکشن سے لطف اندوز ہونے جارہے ہیں۔ اس دفعہ لوگوں کا خیال ہے کہ بھولے کو جنرل الیکشن میں قرآنی تعویذ ملنے کی قوی امید ہے۔ ان تعویذوں کی برکت سے ہی بھولا بھالا بہت ساری ’’بے انصافی‘‘ مشکلات سے تیزی سے نکل آیا ہے۔ ہمارے ہاں تو بلدیاتی الیکشن بھی وہی معتبر اور درست ہوتے ہیں جو جنرلز کروائیں۔ الیکشن جو بھی ہوں قانونی تقاضوں کی تکمیل بہت اہم ہوتی ہے۔ ووٹر لسٹیں، نامزدگیاں، پولنگ اسٹیشن، ریٹرننگ افسران اور عملے کی تعیناتی سے لے کر ووٹر کا پولنگ اسٹیشن آنا اور بیلٹ پیپر پر مہریں لگنا اور پھر ووٹوں کی ’’گنتی‘‘ سے ووٹر کی روح کو انتخابی عمل میں ’’شرکت کا احساس‘‘ دلانا لازم ہوتا ہے۔ چونکہ 8 فروری کے الیکشن بھی جنرل الیکشن ہی ہیں۔ اس لیے اس میں بھی سارے لوازمات کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہے۔ ووٹر سے درخواست ہے کہ نتائج کی فکر کیے بغیر پولنگ کے عمل کا حصہ بنیں۔ نتائج کا معاملہ نتائج بنانے والوں پر چھوڑ دیں۔ اپنے دل کے بہلانے کو یا تسلی کے لیے ’’جنرل الیکشن‘‘ میں اپنے حصے کا کام کریں۔ باقی سب خیر ہے۔