انگریزی بولی ملاکھڑا، ٹی وی اسکرین اور جماعت اسلامی

822

چھوٹی سی دنیا پی ٹی وی کا مقبول ڈراما تھا جس میں ایک کردار جانو جرمن کا تھا، ڈرامے میں تعلیم اور جہالت کا پاکستانی معاشرے میں فرق واقعتاً ایک بہت لطیف پیرائے میں اور بہت دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا تھا، انگلستان سے ولایت پلٹ صاحب کا ’’انگریزی بولی کا ملاکھڑا‘‘ جانو جرمن سے کرایا گیا جو انگریزی ہی سے نَابَلَد تھا اور سب سے دلچسپ بات اس ملاکھڑے کا ریفری واقعی قابل تعریف تھا کہ جس نے ولایت پلٹ صاحب کو جو شْستہ انگریزی زبان کا اظہار کر رہے تھے، جانو جرمن سے مقابلہ میں ہارا ہوا قرار دیا اور تماشائیوں کا ہجوم تو لیاقت اور قابلیت میں ریفری اور انگریزی ملاکھڑا جیتنے والے سے بھی بڑھ کر تھا۔
آسان زبان میں ووٹرز کو سمجھانے کے لیے اگر پیپلز پارٹی کے انتخابی وعدوں، روٹی کپڑا اور مکان پر کوئی ڈراما بنایا جائے یا مسلم لیگ (ن) کے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹ کر لوٹی ہوئی دولت پیٹ پھاڑ کر نکالنے کے وعدہ پر کوئی اسٹیج ڈراما تشکیل دیا جائے یا پی ٹی آئی کے انتخابی وعدوں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر پر کوئی فلم بنائی جائے جس میں بہت سارے مناظر بیرون ملک بھی فلمائے گئے ہوں، اگر عوام یہ ڈراما، اسٹیج شو اور فلم دیکھ لیں تو آئندہ کم از کم جھوٹے وعدوں کے سپنوں سے محفوظ رہ سکیں گے، جس طرح کے وعدے اور باتیں ماضی کی ان تین حکمران پارٹیوں نے الیکشن جیتنے کے لیے کیے تھے اور اب کیے جارہے ہیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ عوام کو واقعتاً حافظہ سے فارغ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی تمام پارٹیاں اپنی اپنی جگہوں پر علٰیحدہ علٰیحدہ انتخابی منشور، انتخابی نشان کے ساتھ موجود ہیں، یہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کو ان کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، اگر پی ٹی آئی کی طرف سے اندرون ملک عوامی احتجاج کیا جاتا اور بیرون ممالک آباد پی ٹی آئی اس طرح احتجاج کرتی جیسے وہ ماضی میں نواز شریف کے خلاف کرتے رہے ہیں تو یہ سب یقینی طور سے موثر ثابت ہوسکتا تھا، لیکن بذات خود پی ٹی آئی اخباری بیانات اور میڈیا سے گفتگو سے آگے نہیں بڑھ پائی۔اس وقت پی ٹی آئی کے سربراہ جیل میں ہیں اور اپنے حالیہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’انتخابی نشان لے لیا گیا لیکن8 فروری کو انہیں جھٹکا لگنے والا ہے اور یہ ڈرے ہوئے ہیں، عوام کو نہیں روکا جا سکتا اسی لیے یہ ڈرے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ پلان سی بھی موجود ہے اور ایک اور پلان بھی بنا ہوا ہے‘‘۔ اسی حوالے سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن نے جس طرح انٹرا پارٹی الیکشن کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دیا ہے اسی طرح نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف بھی کارروائی کریں تو عوام کو یقین آئے گا کہ عام انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ موجود ہے، پی ٹی آئی کے امیدواروں کو بڑی تعداد میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے کر اسمبلیوں میں فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کا بہت بڑا دروازہ کھولا جا رہا ہے، ایک سیاسی کارکن اور پاکستانی شہری کی حیثیت سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک بڑی پارٹی کو ٹیکنیکل بنیاد پر عام انتخابات سے نا اہل قرار دے کر باہر کرنا جمہوریت کو فروغ دینے کے بجائے پامال کرنا ہے‘‘۔ حافظ نعیم الرحمن نے الیکشن کمیشن سے ایک اصولی مطالبہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاست دوسری سیاسی جماعتوں سے بالکل مختلف ہے ورنہ پاکستان کی سیاست میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں نا دشمن، وقت اور مفادات کسی کو کسی کے ساتھ یا کسی کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں۔
اس وقت برساتی مینڈکوں کی طرح الیکشن کے انعقاد کے مواقع پر سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ اور ورکرز نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، جیسے ہی الیکشن ختم ہوں گے نہ پارٹی ورکرز نظر آئیں گے اور نہ ہی ان کی قیادت اور یہ واپس ٹیلی ویژن کی اسکرین پر واقع اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں گے۔ جماعت اسلامی اور بقیہ پارٹیوں میں یہ ہی فرق ہے کہ اپنے وسائل کے زور سے سابقہ حکمران پارٹیاں اور ان کے لیڈر روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی چینلوں پر موجود ہوتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان کی اپنے ہی گلی محلوں میں عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے موجودگی کی نفی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے وابستگان اپنے خلاف اقدامات پر خود اپنے گلی محلوں میں وہ کچھ نہ کر پائے جس کا جوش ان میں موجود تھا، اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی گو کہ ٹیلی ویژن اسکرین پر نظر نہیں آتی لیکن اس کی قیادت اور کارکن اپنی موجودگی ان ہی گلی محلوں میں سارا سال ظاہر کرتے رہتے ہیں جہاں وہ رہائش پزیر ہوتے ہیں، ان کو دیکھنا ہو تو الخدمت کی صورت میں قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کے لیے امداد اکٹھی کرتے ہوئے اپنے دروازوں پر دستک دیتے ہوئے دیکھیے، اجتماعی قربانی کے موقع پر دیکھیے، کے الیکٹرک، سوئی گیس، نادرا اور واپڈا کے دفاتر کے باہر عوام کے مسائل کے حل کے لیے دیکھیے، خصوصاً کراچی میں گلی محلوں میں پانی، سڑک، کچرا اور ابلتے ہوئے گٹر کے مسائل اور محلے کے پارکوں کی تزئین کے حوالے سے دیکھیے، جمعہ کی نماز میں مساجد سے باہر احتجاج کرتے ہوئے کبھی امت مسلمہ اور فلسطین کے مسئلہ پر اور کبھی بجلی گیس کی عدم فراہمی پر کبھی شہری حقوق کے حوالے سے دیکھیے، اپنے گلی محلوں، مساجد اور گھروں میں درس قرآن کی دعوت دیتے ہوئے دیکھیے۔
ٹی وی چینلوں پر آنے کے تقاضے نہ جماعت اسلامی کی خواتین پوری کر سکتی ہیں اور نہ مرد کہ نہ وہ ٹی وی چینل اور نہ صحافیوں کو کسی بھی انداز میں نواز سکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ اس بات کا اظہار کریں اور اپنے ووٹوں کے ذریعے ثابت کریں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں جو ٹی وی اسکرین پر نہیں بلکہ اپنے گلی محلوں میں نظر آتے ہیں۔ ہمدردی کے ووٹ عمران خان پہلے بھی حاصل کر چکے ہیں جب وہ کنٹینر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے اور آج بھی وہ پس دیوار زنداں ہیں، لوگوں کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا وہ اسی طرح ایک بار مزید ایسے لوگوں کو لے کر آئیں جو اقتدار میں آتے ہی عوامی مسائل اور ضروریات سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے خلاف اقدامات اور اگلے الیکشن میں دوبارہ آنے کی منصوبہ بندی کریں۔ لوگ حکومتوں میں پارٹیاں بدل بدل کر آنے والے سیاستدانوں اور حکومت میں رہنے والی تمام پارٹیوں کی کارکردگی دیکھ چکے اور آزما چکے، اب لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ ایسے لوگوں کو آزمایا جائے جو اپنے عمل سے خدمت خلق اور فلاح و بہبود کا وسیع کام کر چکے ہیں، ایسے لوگ گلی محلے کی سطح پر نہ صرف مسائل سے آگاہ بلکہ عوامی قوت کی بنیاد پر موثر احتجاج سے حکمرانوں کو سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ اگر پاکستانی عوام آنے والے انتخابات میں اپنی حقیقی قیادت اور نمائندوں کو منتخب کریں گے تو پاکستان کے وسائل اور اختیارات پر قابض زیادہ دیر تک عوام اور ان کی حقیقی ترجمان قیادت کے درمیان حائل نہ رہ سکیں گے اور یہی وہ راہداری ہے کہ جس کو طے کر کے ایک خوشحال اور گرین اور کلین اور ترقی یافتہ پاکستان کی تعمیر کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔