کراچی: انٹر سال اوّل طلبہ کے فیل ہونے کا معاملہ

686

کراچی میں انٹر سالِ اول کے نتائج میں بڑی تعداد میں طلبہ کے فیل ہونے کا معاملہ ایک سنگین صورت حال ہے۔ اس معاملے پر طلبہ اور والدین کے احتجاج پر محکمہ تعلیم نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو 7 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اس صورت حال پر طلبہ مستقل سراپا احتجاج ہیں اور جہاں جہاں اْن سے ممکن ہورہا ہے اپنے حق کے لیے مزاحمت کررہے ہیں۔ طلبہ پریشان ہیں، وہ بورڈ کے چکر لگا رہے ہیں، انہیں کہا جارہا ہے کہ اسکروٹنی کی درخواست دیں۔ جب کہ بورڈ کے قانون کے تحت اسکروٹنی میں اتنی گنجائش ہی موجود نہیں کہ طلبہ کو انصاف ملے اور ان کی شکایات دور ہوں، کیونکہ اسکروٹنی میں صرف re totalling اور اسسمنٹ نہ ہونے والے سوالات ہوتے ہیں، جب کہ نہ ہی اساتذہ کے اسسمنٹ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا تنقیدی تجزیہ ہوتا ہے۔ کراچی انٹر بورڈ سال اوّل کے امتحانی نتائج میں 66 فی صد سے زائد طلبہ و طالبات فیل ہوئے ہیں، انٹر پری انجینئرنگ کیٹگری میں کامیاب طلبہ کا تناسب 91.34فی صد ریکارڈ کیا گیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صرف ایک تہائی طلبہ نے اس شعبے میں کامیابی سے اپنے امتحانات پاس کیے ہیں۔ اس ضمن میں کہ ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے اور انہیں فیل کردیا گیا یا انتہائی کم نمبر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا مستقبل تباہ کردیا گیا، طلبہ نے پریس کلب پر بھی مظاہرہ کیا ہے اور جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ دھرنا بھی دیا ہے۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی بورڈ کے نتائج 35 فی صد ہیں جبکہ باقی بورڈز کے نتائج کا تناسب دگنا ہے۔ تعلیم سے دشمنی کا حال یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق انٹرمیڈیٹ بورڈ میں گزشتہ سات آٹھ سال سے کنٹرولر ایگزامنیشن نہیں ہے، چیئرمین بورڈ اور سیکرٹری بورڈ بھی تعینات نہیں کیے گئے۔ طلبہ کے اعتراضات درست ہیں اور یہ ان کے ساتھ ظلم ہے۔ کراچی بورڈ کے نتائج میں اتنی زیادہ کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو امتحانات میں ناانصافی ہوئی ہے یا پھر تعلیمی نظام میں کوئی خرابی ہے، جس پر حافظ نعیم الرحمان نے بھی کہا ہے کہ ’’انٹر سال اوّل کے نتائج میں کراچی کے 66 فی صد طلبہ وطالبات کو ایک سازش کے تحت فیل کیا گیا ہے، ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی ہے، اس سازش کو ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ہم کراچی کے طلبہ و طالبات کے حق سے دست بردار نہیں ہوسکتے، صرف اسکروٹنی نہیں بلکہ ری چیکنگ کے ذریعے طلبہ و طالبات کے نتائج کو درست کیا جائے۔ بلاول زرداری بدین کے جلسے میں کہتے ہیں کہ بدین کے فیصلے کراچی کے بابو نہیں کریں گے۔ بلاول زرداری سن لیں کہ کراچی کا فیصلہ بھی سندھ کے جاگیردار اور وڈیرے نہیں کریں گے۔ کراچی کے عوام بڑی طاقت ہیں، اب کراچی کا مینڈیٹ وڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں فروخت نہیں ہوگا‘‘۔