…اگر نظر پڑ گئی تو

640

ہماری عدلیہ انصاف کی فراہمی میں ایک سو تیسویں نمبر پر ہے یا ایک سو چالیسویں نمبر پر اس پر بدخواہ جو چاہیں کہتے پھریں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدلیہ ہے تو یہ ہماری عدلیہ ہے۔ اس کی بہت ساری روایات منفرد ہیں۔ ایک منفرد روایت یہ ہے کہ یہ فیصلے جاری کرنے میں جلدبازی نہیں کرتی۔ پہلے ان کو مناسب وقت تک محفوظ کرتی ہے پھر مناسب وقت پر جاری کرتی ہے۔ ہماری عدلیہ کے فیصلے اور جج دونوں ہی بولتے ہیں۔ بعض فیصلے تو جاری ہونے بلکہ پیدا سے پہلے ہی بولنا شروع کردیتے ہیں۔ حال ہی میں ہماری عدالت عظمیٰ نے عدالت عالیہ پشاور کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے یعنی معروف جمہوری روایات کو پامال کرنے پر پی ٹی آئی سے بلا واپس لے لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک بہت ہی ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلہ ہے۔ جس طرح جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے فیصلے، کتاب لکھنے پر سید مودودی کو سزاء موت دینے کا فیصلہ، بھٹو کی پھانسی کے فیصلوں کے ساز دہائیوں سے بج رہے ہیں، اس فیصلے کا ڈھول بھی اسی طرح صدیوں تک بجتا رہے گا۔ یہ فیصلہ سننے کے بعد اہل خرد تو انتہائی تشویش میں پڑگئے ہیں کہ عدلیہ کی نظر میں پی ٹی آئی نے اپنے اندرونی الیکشن جس طرح کروائے ہیں وہ ایسے ہیں گویا کہ ہوئے ہی نہیں! تشویش یہ ہے کہ جمہوریت کی رکھوالی اور حقیقی جمہوری اقدار کی پاسبان عدالت عظمیٰ کی نظر اگر خدا نخواستہ (امکان تو نہیں ہے مگر…) دیگر ’’لمیٹڈ پولیٹیکل کمپنیز‘‘ عرف سیاسی جماعتوں کے طرز انتخاب پر پڑ گئی تو سیاسی میدان میں موجود (تیر، شیر،کتاب لالٹین، سمیت) سارے انتخابی نشان الیکشن کمیشن کے قبرستان میں دفن ہوسکتے ہیں۔

ٹبر لیگ کا پہلا، دوسرا، تیسرا صدر، مرکزی عہدیدار اور صوبائی عہدیدار کب کس طرح بنے، پھر گزشتہ چالیس سال میں کب کس طریقے پر پارٹی انتخابات ہوئے یا ہوتے ہیں؟ کون الیکشن کمشنر تھا، کون امیدوار بنا، کس سے مقابلہ ہوا؟ نواز شریف، شہباز شریف، مریم شریف، حمزہ شریف، وغیرہ شریف وغیرہ شریف کے مقابل کون امیدوار تھا یا ہوتا ہے؟ کس کو کتنے ووٹ ملے؟ اگر عدلیہ کے کسی جج کے ذہن رسا میں اگر یہ سوالات اٹھ گئے تو ٹبر لیگ کے شیر کا کیا بنے گا؟ پورے ٹبر کو ’’علاج‘‘ کے لیے لندن جانا پڑسکتا ہے۔ بھٹو کی پارٹی میں کتنے اندرونی انتخابات ہوئے کب اور کیسے ہوئے… یہ راز بھی جانا جاسکتا ہے! اے این پی، فضل الرحمان صاحب دیوبندی علماء کی جماعت جے یو آئی کے صدر کب اور کس طرح بنے اور کب سے صدر ہیں؟ اگر عدلیہ کو اس کی سن گن مل گئی تو اتنے سارے علماء کون سی ’’کتاب‘‘ پڑھیں گے؟ زرداری صاحب اور بھٹو زرداریوں کے اُڑتے تیر کا کیا بنے گا؟ ولی خان کے وارثوں کی لالٹین کیسے جلے گی؟ شیخ رشید کے بھتیجوں کو کیا ملے گا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر نقلی الیکشن پر عدلیہ کی طرف سے کوئی قانونی پکڑ ہوئی تو جماعت اسلامی کے سوا کوئی پارٹی نہیں بچے گی۔ مگر ایک خیال یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کا اندرون انتخابات کسی کو سمجھ ہی میں نہیں آئیں گے۔ اس لیے اس کا ترازو بھی خطرے میں ہے۔

ایسے انتخابات دنیا میں کہیں دیکھے ہیں کسی نے کہ جس میں کوئی امیدوار ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی شخص کا اپنے آپ کو کسی عہدے کے لیے پیش کرنا نا اہلی تصور ہوتا ہو۔ یہ عجب انتخابات ہیں کہ نہ کوئی بندہ انتخابی مہم چلا سکتا ہے نہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو کسی عہدے کے لیے نامزد کرسکتا ہے اور نہ اسے پارٹی میں اپنا وارث بنا سکتا ہے۔ ایسے انتخابات کو کون تسلیم کرے گا۔ یہ تو ممکن نہیں کہ سیاسی سرمایہ کار کمپنیاں اپنا طریقہ بدلیں اور اندرونی انتخابات میں کوئی عام سیاسی کارکن مریم، بختاور، بلاول، حمزہ، مونس، ایمل یا ابن فضل کی جگہ لے سکے۔ اس لیے خطرہ ہے کہ آئندہ ہر دفعہ انتخابات پارٹی نشانات سے آزاد ہوں گے۔ بس یہ دعا کریں کہ عدلیہ کی نظر دیگر پارٹیوں کی اندر کی ’’جمہوریت کے حسن‘‘ پر نہ پڑے۔

(ضمنی نکتہ: ویسے جماعت اسلامی عجیب جماعت ہے کہ جہاں ہر چھوٹی بڑی پارٹی وراثت پر چل رہی ہو حتیٰ کہ مسجدوں کی امامت اور مدرسوں کی ملکیت اور مدرسی بھی موروثی ہو وہاں اس جماعت کا ہونا حیرت ناک ہے کہ جس میں کسی سطح پر موروثیت نہیں!)