حکومت پاکستان نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں ایرانی میزائل اور ڈرون حملے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ ایرانی سفیر جو واپس تہران گئے ہوئے ہیں ان سے بھی کہا ہے کہ فی الحال وہ پاکستان نہ آئیں۔ ایران کے ساتھ جتنے مذاکرات چل رہے ہیں انہیں بھی معطل کردیا گیا۔ بدھ کو وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے دفتر خارجہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے سرکاری بیان میں کہا کہ گزشتہ رات ایران کی طرف سے پاکستان کی خود مختاری کی بلااشتعال اور کھلم کھلا خلاف ورزی بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ غیر قانونی عمل مکمل طور پر ناقابل قبول اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پاکستان اس غیر قانونی اقدام کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، نتائج کی ذمے داری پوری طرح ایران پر عائد ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ پیغام ایران تک پہنچادیا ہے، اور انہیں یہ بھی مطلع کیا ہے کہ پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان میں ایران کے سفیر کو جو اس وقت ایران کے دورے پر ہیں کہا گیا ہے کہ وہ فی الحال واپس نہ آئیں۔ ہم نے ان تمام اعلیٰ سطحی دوروں کو بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو آنے والے دنوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان جاری تھے یا طے شدہ تھے۔ چاہ بہار میں جاری پاک ایران جوائنٹ بارڈر ٹریڈ کمیٹی کا اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا ہے، پاکستانی وفد چاہ بہار سے واپس پاکستان پہنچ گیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس واقعے کا جواز پیدا کرنے کے لیے جیش العدل کی جانب سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کروائی گئی۔ اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ ایرانی حکومت اس میں ملوث ہے۔ پاکستان کی حدود میں ایران کا حملہ صدمہ انگیز اور حیرت کا باعث ہے۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب میں پاکستان کے سب سے حساس صوبے میں ایرانی فوج کی جانب سے ہدف بنا کر میزائل اور ڈرون حملے کی خبر آئی تھی تو وزارت خارجہ اور حکومت پاکستان نے بہت محتاط ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ایران کی حکومت کی جانب سے میزائل اور ڈرون حملوں کی تصدیق کردی گئی تھی، منگل کی شام اس وقوفے کے بعد دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ایرانی ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا اور ایرانی فوج کے اس غیر ذمے دارانہ اقدام پرزور احتجاج کیا گیا۔ اس قسم کے واقعات کسی ملک کی خود مختاری پر حملہ تصور کیے جاتے ہیں۔ دفتر خارجہ کے جاری کردہ پریس ریلیز میں ابتدائی طور پر حیرت اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے کئی ذرائع موجود ہیں ان کو کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان کسی ایسے واقعے کی نظیر نہیں ملتی، دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی کے ناپسندیدہ واقعات ضرور پیش آئے ہیں لیکن ان کا حل تلاش کرلیا جاتا تھا۔ ایران کی حکومت کی جانب سے اس حملے کا جو سبب بیان کیا گیا ہے وہ نہ حکومت پاکستان کو قبول ہے اور نہ ہی پاکستان کے عوام اسے پسند کررہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد عالمی سطح پر سب سے اہم بیان چین کی جانب سے آیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان مائونگ نے پریس بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم پاکستان اور ایران سے کشیدگی میں اضافے کا باعث بننے والے اقدامات سے گریز کرنے اور امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران اور پاکستان بڑے اسلامی ممالک ہیں اور ایک دوسرے کے قریبی پڑوسی ہیں اور دونوں ہی ہمارے قریبی شراکت دار اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔ ہماری اپیل ہوگی کہ اس مسئلے پر پاکستان اور ایران تحمل کا مظاہرہ کریں تا کہ خطے میں کشیدگی میں اضافہ نہ ہو، اس کے مقابلے میں ایران اور پاکستان دونوں کے دشمن امریکا کی جانب سے ایسا ردعمل آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے 2 مسلمان ممالک کے درمیان تصادم اور کشیدگی سے خوشی ہے۔ امریکا اس بات پر خوش ہے کہ ایران کی تنہائی میں اضافہ ہوگا، پاکستان کے عوام کو اطمینان حاصل ہوا تھا کہ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان معطل سفارتی تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔ اس تناظر میں بھی ایران کی حکومت کے اس قدم کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ پاکستان کی جانب سے لازمی ردعمل کے بعد ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کے پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کو فون کیا اور موجودہ صورت حال پر گفتگو کی۔ وزیر خارجہ نے بھی کہا کہ اس واقعے سے دونوں برادر مسلم ممالک کے درمیان تعلقات اور دوطرفہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ایران کے میزائل حملے میں بچیاں اور خواتین نشانہ بنی ہیں، ایسے موقع پر جب تین ماہ سے اسرائیل غزہ پر مسلسل بمباری کررہا ہے اور اس کا نشانہ عام شہری بن رہے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے کہ اس سے اسرائیل کو تقویت حاصل ہوگی۔ امت مسلمہ اس بات کی توقع کررہی تھی کہ کم از کم پاکستان، ایران اور ترکی فلسطین کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام کریں گے لیکن ایسے حساس اور نازک موقع پر اسرائیل کی جانب سے پاکستان کی حدود میں براہ راست فوجی کارروائی امت مسلمہ کا مقدمہ کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔ ایران نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پاکستان کے شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا ہے بلکہ اپنے شہریوں کو نشانہ بنایا جو اسرائیل کی مدد کررہے تھے۔ اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ وزارت خارجہ نے صحیح کہا ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کئی سطح پر رابطے کا نظام موجود ہے۔ اگر ایران کی حکومت کو کوئی شکایت تھی تو وہ ان ذرائع کو استعمال کرسکتی تھی۔ ایران کی حکومت پر اس لیے بھی زیادہ ذمے داری آتی ہے کہ وہ حماس کو اپنا اتحادی قرار دیتی ہے۔ اسرائیل حماس کے نام پر غزہ کے نہتے شہریوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ کیا عام شہری آبادی کو نشانہ بنانے کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہر حکومت نے ’’دہشت گردی کے انسداد‘‘ کے نام پر شہریوں کے قتل عام کا لائسنس حاصل کرلیا ہے۔اگربظاہر اس عمل کا مشاہدہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس سارے کام کا فائدہ اسرائیل اور امریکا کو پہنچے گا ۔ اگر ایران اور پاکستان کی کشیدگی میں اضافہ ہوا تو بھی فلسطینیوں کا موقف کمزور ہو گا اور اگر جھڑپوں تک نوبت آگئی تو پھر شہریوں کو نشانہ بنانے کے اسرائیلی عمل پر زبانی تنقید کرنے والے مسلم ممالک اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے ۔ ایک اور کوشش پاکستان اور افغانستان میںکشیدگی پیداکرکے کی گئی تھی لیکن وہ بوجوہ ناکام ہو گئی یا اب تک ناکام ہے ، ایران اور پاکستانی حکومتیں اگرفلسطین کے کاز سے مخلص ہیں تو محتاط رویہ اختیار کریں ۔