’’پی پی کا اونٹ اور نیازی کے محسن‘‘

740

’’چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کا اونٹ جس طرف بیٹھے گا ادھر حکومت بنے گی‘‘۔ نہیں معلوم اونٹ سے کون مراد ہے، یہ اشارہ کس طرف ہے یا کس کی طرف ہے؟ یہ اونٹ کوئی ’’قریبی‘‘ اونٹ ہے یا دور پرے کا۔ جو بھی ہے اس اونٹ پر نظر رکھنی ہوگی کہ کس طرف جارہا ہے کس کروٹ بیٹھ رہا ہے۔ پی پی کے اونٹ نے ماضی پچاس سال میں کچھ اچھے کارنامے انجام نہیں دیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پی پی کا اونٹ گزشتہ پچاس سال سے کر کچھ نہیں رہا، صرف ملکی معیشت کے کھیتوں میں بے لگام چر رہا ہے۔ اس اونٹ نے پہلے ہلے میں ملک کی معیشت کے سارے درخت ٹنڈ منڈ کردیے تھے۔ پندرہ سال سے سندھ میں مسلسل اور پچاس سال سے مرکز میں وقفے وقفے سے یہ اونٹ ہرے بھرے باغات کو چبا رہا ہے۔ اس اونٹ نے سب سے پہلے نیشنلائزیشن کے نام پر ملکی صنعتوں کا باغ ایسا اجاڑا کہ آج تک کبھی ویسے آباد نہ ہوسکا۔ پھر جمہوریت کے پودوں کو دھاندلی کے بھاری پائوں تلے روندا۔ اونٹ کی خصلت کے عین مطابق سیاسی کینہ پروری کے ہاتھوں مجبور ہوکر ڈاکٹر نذیر اور کئی اور سیاسی مخالفین کی جان لی۔ سیاسی مخالفوں کو ڈی پی آر تلے دبایا۔ سیاسی کھیت میں بے لگام اچھل کود سے سیاسی روایات واخلاقیات کی فصلوں کو اجاڑا۔ اس اونٹ نے پندرہ سال سے سندھ میں اپنے پالنے والے عوام کی گردن دبوچی ہوئی ہے۔ یہ اونٹ بلدیات کے کھیت میں کودتا ہے تو پانی صفائی کے نظام کو کرپشن کے پائوں تلے توڑ پھوڑ ڈالتا ہے۔ یہ اونٹ تعلیمی نظام کو نہیں پنپنے دیتا۔ یہ صحت اور اسپتالوں کے نظام کو نہیں چلنے دیتا۔ پی پی کا یہ اونٹ جمہوریت کی نرسریوں میں اچھل کود کر کے جمہوریت کے پودوں کو پندرہ سال سے برباد کر رہا ہے۔ اونٹ تو اونٹ ہی ہوتا ہے۔ اس کی کون سی کل سیدھی ہوتی ہے کہ یہ کوئی سیدھا کام کرے۔ پی پی کے بے لگام سیاسی اونٹ سے کینہ پروری چلی جائے تو وہ اونٹ کیسے کہلائے گا۔

سندھ اور سندھ کے دارالحکومت کی بلدیاتی کھیتیاں ویران کرنے کے بعد ایک بار پھر اس بدمست وڈیرے اونٹ کی نظریں پورے ملک کی مالی، معاشی، سیاسی، اخلاقی کھیتیوں، نرسریوں اور باغات پر ہے۔ ہمارا تو پورا سیاسی منظرنامہ ہی جانوروں سے بھرا پڑا ہے۔ مالک سے الگ ہوکر خچر، گدھے دولتیاں جھاڑتے پھر رہے ہیں۔ ٹبر پرستی کا شیر سیاسی بیماری کے بعد اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ اب شکاری کی مدد سے ایک بار پھر مردار خوری کے لیے بھی ہے۔ بے منشورے بندروں نے بھی ادھم مچایا ہوا ہے۔ فرقہ واریت کے مگر مچھ بھی شکار میں اپنے حصے کے طالب ہیں۔ آوارہ لومڑ اور گیدڑ بھی خرگوشوں کی تلاش میں ہیں۔ لسانیت کے لکڑبگے پینتیس سالہ چیر پھاڑ کی یاد اور آس میں ایک بار پھر اکٹھے ہوکر بیمار شیر کی معیت میں شکار ڈھونڈنے نکلے ہیں۔ زرافہ بھی چڑیا گھر کی اونچی دیواروں سے سر اٹھا کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سیاسی جنگل میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یا بٹھایا جائے گا یہ ’’جت‘‘ (ساربان) ہی جانتا ہے اور آنے والی حکومت، اونٹ کی کروٹ بٹھائی جائے گی، شیر کی دم کی طرف یا کسی اور جانور کو ساربان کی ’’خدمت آزمائی‘‘ کا ایک موقع دیا جائے گا۔ یہ ابھی زیادہ واضح نہیں!

فرقوں، قومیتوں اور برادریوں میں بٹی ہوئی بے جہت قوم، شکاری اور جانوروں کے اس پرانے دھول تماشے کو جمہوریت سمجھ کر ایک بار پھر زندہ باد مردہ باد کی صدائوں میں امیدوں کے چراغ روشن کرے گی کہ شاید اس دفعہ کوئی ’’تبدیلی‘‘ اس کی تقدیر بدل دے۔ ملک وقوم سے مخلص کچھ ایماندار کھرے سچے دوستوں کا خیال ہے کہ بہت ہوچکا، لوگ جاگ چکے ہیں، اب جانوروں کا پتلی تماشا نہیں چلے گا! اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر…!

خان کی حکومت گرانے میں کس کا کیا کردار تھا اس کو بھول جائیں۔ یہ یاد رکھیں کہ مولانا زرداری شریف سمیت، پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرنے والا ہر کردار نیازی صاحب کا محسن ہے۔ شریفوں زرداریوں کی کرپشن سے نجات دلانے کا دعویدار اپنے دور کو کرپشن سے پاک نہ کرسکا۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے آنے والے نے سینٹرل بینک ہی غلامی میں دے دیا۔ مختصر کابینہ، پروٹوکول کا خاتمہ اور سادگی کے خواب بنی گالہ اور وزیراعظم ہائوس کے درمیان پرواز کرتے ہیلی کاپٹر نے ہوا میں اڑادیے۔ خان کے ساڑھے تین سالہ یوٹرن دور میں اخلاقی زوال، سیاسی انتقام، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، ناانصافی، اقربا پروری، ملک پر بھاری سودی قرضوں کا اضافہ، ملکی کرنسی کی تاریخی ناقدری شریف زرداری دور کو بھی مات کرگئی۔ خان کی نااہلی سے نظر ہٹانے کے لیے حکومت کی برطرفی اور پرانے مہروں کے بھان متی کنبے کی حکومت بنانے سمیت گزشتہ دوسال میں بہت سے ڈرامے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

’’نامزدگی مسترد ہوگئی، نامزدگی منظور ہوگئی‘‘ کے ڈرامے کے بعد ’’بلا چھن گیا، بلا مل گیا‘‘ کا ڈراما، پھر ’’سائفر اور سازش کے ڈرامے کا بھی ڈراپ سین‘‘، اس قسم کیڈراموں کے ذریعے کون ہے جو نامراد ڈرامے کو میڈیا میں زندہ رکھے ہوئے ہے اور ایک مکمل ناکام کردار کو پھر سے عوام کا ہیرو بنا کر ملک پر مسلط کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ یہ بے بس اور شخصیت پرست عوام کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ ڈراما اچھی ریٹنگ کے ساتھ ابھی جاری ہے۔ ابھی کتنی قسطیں باقی ہیں، پتا نہیں!