یہ تماشا نہیں چلے گا

782

عدالت عظمیٰ کی تنبیہ ہے کہ 8 فروری کے الیکشن کے حوالے سے کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے بے یقینی کی فضا پیدا ہو۔ یہ انتباہ یقینا نیک نیتی پر مبنی ہے کہ بے یقینی کی فضا میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ یہاں مطلوبہ نتائج کے الفاظ ضیاء الحق کے ’’مثبت نتائج‘‘ کے معنوں میں استعمال نہیں کیے جارہے، مطلوبہ نتائج کے حقیقی معنوں میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ یقین کے حوالے سے یاد رہے اہل ایمان کو نصیحت کی گئی کہ دعا بھی قبولیت کے یقین کے ساتھ مانگو، بے یقینی عمل کی قوت زائل کردیتی ہے۔ لیکن حقائق حقائق ہیں۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ ہر چند عدالت عظمیٰ بے یقینی کو یقین میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے، مثلاً گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے حوالے سے عدالت عظمیٰ نے اجلاس کی غیر معمولی طوالت کے باوجود معمولی وقفے کے بعد فیصلہ سنانے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کے انتظار میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کھلے رہے… الیکشن کمیشن کے دفتر میں مکھیاں بھی نہیں ہوتیں لہٰذا یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ’’اس دوران الیکشن کمیشن کا عملہ مکھیاں مارتا رہا‘‘ البتہ چشم تصور میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ادھر عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان نکتہ بہ نکتہ فیصلہ تک پہنچ رہے ہوں گے ادھر الیکشن کمیشن کا عملہ چائے کی چسکیاں لے کر حرارت کشید کررہا ہوگا تاکہ ادھر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ فیکس پر موصول ہو، ادھر پھرتی سے اس پر عملدرآمد ہو جائے۔

اور پھر ایسا ہی ہوا، ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی کے مصداق عدالت عظمیٰ کا فرمان عالی شان الیکشن کمیشن کی سیڑھیاں چڑھنے اور اخبارات کے دفاتر پہنچنے سے قبل ہی عدالت عظمیٰ میں مورچہ لگائے الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے دفتروں اور سیاست سے دل چسپی رکھنے والوں کے ڈرائنگ رومز، بیٹھکوں، چوپالوں، چوکوں اور چوراہوں میں موضوع گفتگو بن گیا۔ قانونی حوالوں سے بے شک عدالت عظمیٰ کا فیصلہ درست ہے اسی لیے تحریک انصاف کے چیئرمین جناب بیرسٹر گوہر خان نے اس فیصلے پر منفی تنقید کرنے کے بجائے اسے تسلیم کرنے اور نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ بھی کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ اصل بات قانونی موشگافیوں کی نہیں، اصل بات فیصلے کے رد و قبول کی بھی نہیں، فیصلے کے اثرات و نتائج کی ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن، سلیکشن کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے، لیکن… اور اس لیکن سے آگے آیت نہیں پوری عبارت ہے… ویسے کیا الیکشن کمیشن کو یاد ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حراست کے دوران عبوری انتظام سنبھالنے والی محترمہ نصرت بھٹو کا انتخاب کس طرح ہوا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کس طرح شریک چیئرپرسن بن بیٹھی تھیں۔ نصرت بھٹو کی جگہ بے نظیر بھٹو کو چیئرپرسن بنانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد جو وصیت برآمد کی گئی تھی وہ، معاف کیجیے گا میرا سوال یہ نہیں ہے کہ وہ اصلی ہے یا نقلی، میرا سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی کے آئین میں اختیار کی منتقلی کے لیے وصیت ایک طریقے کے دور پر درج ہے… میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ تو ہم جیسوں کو الیکشن کمیشن سے یہ پوچھنے کا حق ہے کہ آصف زرداری کو کیوں کر پی پی کا چیئرمین تسلیم کرلیں گیا تھا۔

یہ سوال نواز شریف سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ کے صدر کس طرح بن بیٹھے۔ ان کی پارٹی کے نام کے ساتھ ’’ن‘‘ کس بات کی علامت ہے۔ ایم کیو ایم سے متحدہ تک کے سفر میں ایم کیو ایم اپنے کس آئین کے تحت چلتی رہی۔ عظیم طارق کس طرح منتخب ہوئے تھے اور ان کی موت کے بعد آخر یہ عہدہ خالی کیوں ہے؟ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ پونے دوسو جماعتوں میں سے کتنی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن، تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے مختلف ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ۔ اے این پی ہو یا ایم کیو ایم۔ جمعیت علماء اسلام ہو یا جمعیت علماء پاکستان میں کون سی جماعت ہے جس میں پارٹی کے ارکان کے اندراج کا کوئی طریقہ رائج ہو۔ کیا سیاسی جماعتوں کو اپنے ارکان کا سادہ سا ریکارڈ بھی نہیں رکھنا چاہیے جس میں ان کے نام پتے کے ساتھ تاریخ رکنیت اور اگر انہیں تنظیم سے نکالا گیا ہو تو تاریخ اخراج درج ہو۔ آج کے کمپیوٹرائزڈ دور میں سادہ نہیں پیچیدہ ریکارڈ رکھنا بھی بہت آسان ہے لیکن میں دعوے سے کہ سکتا ہوں ایسا ریکارڈ جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت کے پاس دستیاب نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی الیکشن کی سنجیدگی اور ایک ایک رکن کے حق رائے دہی کی حفاظت کی ذمہ داری کیسے ادا کرسکتا ہے۔ اگر پی پی سے لے کر مسلم لیگ تک سب کے کچے پکے انتخابات کو قبول کیا جاسکتا ہے تو تحریک انصاف کے انتخابات کو کیوں نہیں؟

یہ کہنا غلط ہے کہ تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا (ایسا ہوتا تو اسے ’’بلّا‘‘ کے بجائے کوئی اور نشان الاٹ کردیا جاتا) درحقیقت تحریک انصاف سے الیکشن لڑنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ کہنا درست ہے کہ کسی کو بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن ان انتخابات کو معتبر بنانا کس کی ذمہ داری ہے۔ تحریک انصاف اگر انتخابات کا بائیکاٹ کردے تو کیا انتخابی عمل کے غبارے سے ہوا نہیں نکل جائے گی۔ ویسے تحریک انصاف کے لیے ایک مفت مشورہ ہے کہ وہ ’’انصاف طلب گروپ‘‘ کے نام سے الیکشن لڑنے کے لیے قابل ِ اعتماد پینل میدان میں اتاریں۔ یوں ہے تو پھر یوں ہی سہی۔