اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قومی انتخابات8فروری 2024 کو منعقد ہونا قرار پائے ہیں، ان انتخابات کے نتیجے میں آئندہ پانچ سال کے لیے وفاق اور صوبوں کی سطح پر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کیا جائے گا۔ سب سے پہلے تو ہماری دعا ہے: یہ انتخابات شفاف، پرامن اور منصفانہ طریقے سے منعقد ہوں تاکہ آنے والی حکومتیں حقیقت میں عوامی تائید واعتماد کی حامل ہوں اور ملک وملّت کے مفاد میں بہتر فیصلے کریں اور شفاف طریقے سے انہیں بلا امتیاز نافذ کریں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے دیباچے میں تحریر ہے:
’’چونکہ پوری کائنات کا اقتدارِ اعلیٰ درحقیقت اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہے اور یہ اقتدار واختیار جو ایک مقدس امانت ہے، پاکستان کے عوام کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرنا ہوگا اور چونکہ پاکستان کے عوام کا یہ منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے، جس کے اندر ریاست اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس اختیار واقتدار کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ اس میں اسلام کی تشریحات کے مطابق جمہوریت، آزادی، مساوات، بردباری اور سماجی انصاف کے اصولوں کو نافذ کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ قرآن وسنّت کے اصولوں کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور ان کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ اس نظام میں اس بات کی گنجائش پیدا کی جائے گی کہ اقلیتیں آزادانہ طور پر اپنے مذاہب کے مطابق عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ وہ علاقے جو اب پاکستان میں شامل ہیں یا جو آئندہ شامل ہوں گے، سب مل کر ایک وفاق ترتیب دیں گے، جس میں شامل تمام وحدتیں تفویض کردہ اختیار واقتدار کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کریں گی۔ اس میں قانون اور اخلاقِ عامہ کے تابع رہتے ہوئے بنیادی حقوق بشمول مساوی حیثیت ومواقع سَماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، سوچ، اظہارِ رائے، عقیدہ وایمان، عبادت اور اجتماع کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔
اس میں اقلیتوں، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کا قرارِ واقعی انتظام کیا جائے گا، عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دیا جائے گا، ملک کی تمام وفاقی اکائیوں کی یک جہتی، ان کی آزادی اور زمینی، بحری اور فضائی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا، تاکہ اہلِ پاکستان اقوامِ عالَم کے درمیان ایک فلاح یافتہ قوم کی حیثیت سے باعزت مقام پاسکیں اور عالمی امن، ترقی اور انسانی خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار اداکر سکیں۔
لہٰذا اب ہم جمہور پاکستان قادرِ مطلق اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، پاکستان کی خاطر عوام کی دی ہوئی قربانیوں کے اعتراف کے ساتھ، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کہ پاکستان عدل عمرانی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہوگی۔ اس جمہوریت کے تحفظ کے لیے وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ جو ظلم وستم کے خلاف عوام کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ اس عزم بالجزم کے ساتھ کہ ایک نئے نظام کے ذریعے مساوات پر مبنی معاشرہ تخلیق کر کے اپنی قومی اور سیاسی وحدت اور یک جہتی کا تحفظ کریں گے۔ بذریعہ ہذا قومی اسمبلی میں اپنے نمائندوں کے ذریعے یہ دستور منظور کر کے اسے قانون کا درجہ دیتے ہیں اور اسے دستور تسلیم کرتے ہیں‘‘۔
دستورِ پاکستان کے اس دیباچے میں اقتدار کو درحقیقت اللہ تعالیٰ کا مطلق (Absolute) حق تسلیم کیا گیا ہے، اس کے لیے انگریزی کا لفظ Sovereignty استعمال کیا جاتا ہے، نیز قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنا جو بھی اجتماعی نظم قائم کریں گے، وہ اللہ تعالیٰ کی نیابت میں اور اُس کے تفویض کردہ اختیارات کے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے کریں گے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچادو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں نہایت عمدہ نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ (النسآء: 58) یہاں آیت میں تفویضِ امانت کا حکم فرمانے کے بعد عدل پر مبنی فیصلے کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں ترجیحی طور پر امانت سے مراد اقتدار واختیار کی امانت ہے، یعنی جس کے ہاتھ میں فیصلہ کرنے اور اُسے نافذ کرنے کا اختیار ہو، اس کی مزید وضاحت اس حدیثِ مبارک سے ہوتی ہے: ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ ایک مجلس میں لوگوں سے گفتگو میں محو تھے، ایک اعرابی آیا اور اس نے سوال کیا: قیامت کب ہوگی، جب آپ کی گفتگو مکمل ہوگئی تو آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں ہوں، آپؐ نے فرمایا: جب امانت ضائع کردی جائے گی تو قیامت کا انتظار کرو، اس نے پوچھا: (یارسول اللہ!) امانت کیسے ضائع ہوگی، آپؐ نے فرمایا: جب کوئی منصب نا اہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری) یہاں وہ مناصِب مراد ہیں جو قوم کے اجتماعی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے: آج کل صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء، گورنرز، پارلیمنٹ میں نمائندگی، ماتحت عدالتوں سے لے کر عدالتِ عُظمٰی تک ہر سطح کے عدالتی مناصب شامل ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے باطل کی حمایت اس لیے کی کہ اُس کے ذریعے حق کو باطل کریں تو اُس سے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ اٹھ گیا اور جو اللہ کی حجت (کتاب وسنّت) کو بے توقیر کرنے چلا، اللہ تعالیٰ اُسے بے توقیر فرمادے گا اور قیامت کے دن اُس کے لیے رسوائی کا سامان بنے گا، اور جو مسلمانوں کے معاملات کا متولّی (امیر) بنا اور اس نے اُن پر ایک شخص کو عامل بنایا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اُن میں (اس ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے) اُس سے بہتر شخص موجود ہے اور وہ کتاب اللہ اور سنّتِ رسول کا بہتر عالم بھی ہے، تو اُس نے اللہ، اس کے رسول اور تمام مومنوں سے خیانت کی اور جس نے لوگوں کی حاجات کو نظر انداز کیا تو اللہ تعالیٰ اُس کی طرف نظرِ کرم نہیں فرمائے گا تاوقتیکہ وہ لوگوں کی حاجات کو پورا کرے اور اُن کے حقوق کو (پورا پورا) ادا کرے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار واختیار اور قضا کے مناصب امانت ہیں اور ان مناصب پر نا اہل اور خائن کو فائز کرنا خیانت ہے۔
رسول اللہؐ کے خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں فرمایا تھا: ’’سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے‘‘۔ نیز انہوں نے فرمایا: ’’اگر میں ٹھیک کام کروں تو تم میری اعانت کرو اور اگر میں (بالفرض خدانخواستہ) جادۂ مستقیم سے انحراف کروں تو تم مجھے سیدھا کردو‘‘، مزید فرمایا: ’’تم میں سے جو کمزور ہے، وہ میرے نزدیک طاقت ور ہے تاوقتیکہ میں اُس کا حق (ظالم سے چھین کر) اُسے لوٹا نہ دوں اور تم میں سے جو طاقت ور ہے (یعنی جتھے والا ہے، داداگیر ہے، اثر رسوخ اور طاقت کا مالک ہے)، وہ میرے نزدیک کمزور ہے تاقتیکہ میں اُس سے (مظلوم کا) حق چھین نہ لوں‘‘۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ یا اسلامی ریاست کی اولین ذمے داری مظلوموں کے حقوق کا تحفظ اور ظالموں کی شوکت کو توڑنا ہے، اگر کسی حکومت میں یہ فریضہ ادا نہیں ہوتا تو اُس کا شرعی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا، کیونکہ ریاست کا اصل کام ہی رعایا کے حقوق کا تحفظ ہے، نیز یہ کہ حاکمِ وقت پر نظر رکھنا اور اس کو جادۂ مستقیم پر قائم رکھنا رعایا کی ذمے داری ہے تاکہ وہ راہِ راست سے انحراف نہ کرسکے۔
امانت کے متعلق مزید احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں:
آپؐ نے فرمایا: ’’اس امت سے جو چیزیں سب سے پہلے اٹھائی جائیں گی، وہ حیا اور امانت ہے، سو تم اللہ عزوجل سے ان کا سوال کرو‘‘، (شعب الایمان) ’’جو امانت دار نہیں، وہ صاحبِ ایمان نہیں اور جسے اپنے عہد کا پاسِ وفا نہ ہو وہ دین دار نہیں‘‘، (مسند احمد) ’’امانت آسمان سے نازل ہوئی ہے اور یہ لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتاری گئی ہے‘‘۔ (بخاری) بندوں کے مابین دائر معاملات میں چند اور چیزوں کے بارے میں بھی احادیثِ مبارکہ میں ہدایات دی گئی ہیں، ارشاد فرمایا: ’’جس سے (کسی مباح امر کے بارے میں) مشورہ طلب کیا جائے، وہ امانت دار ہوتا ہے‘‘، (سنن ابودائود) یعنی اُس پر لازم ہے کہ دیانت دارانہ رائے دے تاکہ اُس کے دینی بھائی کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اسی طرح مجلس میں کی گئی باتیں امانت ہوتی ہیں اور جس نے کوئی بات بیان کی ہے، اُس کی اجازت کے بغیر اُس کا اِفشاکرنا حدیث پاک کی رُو سے منع ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں، سوائے تین مجالس کے: (۱) کسی مجلس میں کسی کے قتلِ ناحق کا منصوبہ بنایا گیا ہو، (۲) کوئی زنا کا مرتکب ہو (یا زنا کی ترغیب دے)، (۳) یا ناحق کسی کا مال لوٹے (یعنی ڈاکا زنی کرے)‘‘۔ (سنن ابودائود) اس حدیث کا مطلب یہ ہے: اگر کسی مجلس میں قتلِ ناحق کی منصوبہ بندی کی گئی ہو یا کسی کی جان مال اور آبرو کی حرمت پامال کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہو، تو اُس کے بارے میں اُس شخص کو باخبر کرنا امانت میں خیانت کے زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ ایک مومن کی جان، مال اور آبرو کی حرمت کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض ہے۔
الغرض ایمان کے بعد تمام امانتوں میں ’’امانتِ امارت‘‘ سب سے اہم امانت ہے اور اس کا تحفظ معاشرے کی اجتماعی بقا کے لیے ضروری ہے، اس کا ذریعہ جدید دور میں انتخابات ہیں، ان میں عام مسلمانوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ معاشرے کے اجتماعی حقوق کے تحفظ، ظلم وعدوان کے قَلع قَمع اور حقوق کے تحفظ کے لیے امانت دار، دیانت دار اور اہل افراد کا چنائو ضروری ہے، ورنہ بعد کو واویلا کرنا بے سود ہوگا۔ موجودہ دور میں حکومت کا دائرۂ اختیار واقتدار بہت وسیع اور ہمہ گیر ہوگیا ہے، وہ تمام جہتوں کو محیط ہے، جدید ذرائع ابلاغ اور حصولِ معلومات کے ذرائع نہایت وسیع ہوچکے ہیں۔ رسول اللہؐ کے دوسرے خلیفۂ راشد امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا: ’’ہم محکوم بھی رہے ہیں، تب ہمیں پتا چلا کہ حاکم کیسا ہونا چاہیے اور ہم حاکم بھی بنے ہیں، تب ہمیں پتا چلا کہ رعایا کیسی ہونی چاہیے‘‘۔