بنگلا دیش کے متنازع انتخابات

841

بنگلا دیش میں ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ تقریباً 85فی صد نشستوں پر کامیاب ہوگئی ہے اور شیخ حسینہ واجد مسلسل چوتھی مرتبہ اور مجموعی طور پر پانچویں مرتبہ اقتدار کا ہما سر پر سجانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ عوامی لیگ کی یہ فتح بنگلا دیش میں درحقیقت ایک پارٹی کی حکمرانی کا باعث بن چکا ہے۔ اتوار 7جنوری کو بنگلا دیش میں ہونے والے اس الیکشن میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے سبب ووٹنگ کا تناسب بھی انتہائی کم رہا جو کہ 40فی صد رہا ہے ناقدین اس کو بھی حکمران عوامی لیگ کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ 2018 میں بنگلا دیش میں ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب 80فی صد سے بھی زائد رہا ہے۔ کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں میں سے بیش تر کا جھکائو عوامی لیگ کی جانب ہی ہے۔ عوامی لیگ کی اتحادی جماعت جاتیہ قومی پارٹی نے بھی آٹھ نشستیں حاصل کی ہیں۔ حسینہ واجد کو ان انتخابات میں کسی سخت حریف کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن اس نے کچھ حلقوں میں امیدوار کھڑے کرنے سے گریز کیا جو بظاہر مقننہ کو ایک جماعتی ادارہ قراردیے جانے سے بچنے کی ایک واضح کوشش ہے۔

17کروڑآبادی والے ملک بنگلا دیش میں 1971 میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ 12ویں عام انتخابات تھے اور بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد 2009 سے مسلسل اقتدار میں ہیں اور وزارات عظمیٰ کے منصف پر براجمان ہیں وہ 1996 سے 2001 کے درمیان پہلی مرتبہ وزیراعظم بنی تھی۔ عام انتخابات سے قبل 28اکتوبر کو حزب اختلاف کی ایک ریلی میں تشددکے واقعات رونما ہونے کے بعد تقریباً 20ہزار حزب اختلاف کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ان جلائو گھیرائو اور پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کم از کم 16افراد ہلاک اور پانچ ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے تھے۔ جس پر اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں نے ملک بھر میں دو دن کی ہڑتال کی کال بھی دی تھی اور عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ ووٹ نہ دیں۔ بنگلا دیش کے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ غیر سرکاری نتائج کے مطابق 298نشستوں میں سے عوامی لیگ 222 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ امریکا برطانیہ اور اقوام متحدہ نے بھی بنگلا دیش میں ہونے والے متنازع انتخابات کے دوران تشدد اور جبر کی مذمت کرتے ہوئے اسے جمہوریت کی نفی قرار دیا ہے انہوں نے حکومت سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام بنگلا دیشیوںکے انسانی حقوق کو مدنظر رکھا جائے اور ملک میں حقیقی جامع جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔ بنگلا دیش میں انتخابات سے قبل جمہوری معیارات کو پورا نہیں کیا گیا۔ جمہوری انتخابات کا انحصار معتبر کھلے اور منصفانہ مقابلے پر ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کا احترام قانون کی حکمرانی اور مناسب طریقہ کار جمہوری عمل کے بنیادی عناصر ہیں لیکن بنگلا دیش میں حالیہ انتخابات میں یہ معیارات پورے نہیں کیے گئے۔ بنگلا دیش کی حزب اختلاف کی اہم جماعت نیشنلسٹ پارٹی بی این پی جس کی صفوںکو بڑے پیمانے پر تباہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں دکھاوے کے ان انتخابات کا انہوں نے مکمل بائیکاٹ کیا۔

آمرانہ سوچ اور گرفت رکھنے والی حسینہ واجد بظاہر ان قومی انتخابات میں کامیاب ہوگئی ہیں لیکن دنیا بھر میں انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ان جعلی انتخابات کو ہر جگہ مسترد کیا گیا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بنگلا دیش میں جمہوریت مرچکی ہے۔ جمہوری سسٹم میں انتخابات کا تعین عوام کی شرکت سے ہوتا ہے لیکن پوری دنیا نے بنگلا دیش میں ہونے والے ان انتخابات کو دھوکہ اور فریب قرار دیا ہے۔ بنگلا دیش میں انتخابات کے دوران تشدد اور جبر جمہوریت کی نفی ہے۔ 20ہزار سے زائد سیاسی کارکنان کی گرفتاریاں غیرجمہوری اقدام ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ بنگلا دیش کے پرتشدد انتخابات نے سب کے سامنے قلعی کھول کررکھ دی ہے سنسان پولنگ اسٹیشنوں کے باوجود 40فی صد ووٹنگ کا تناسب جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے یہ انتخابات نہ ہی آزادانہ تھے اور نہ ہی منصفانہ اور ان انتخابات میں تمام جماعتوں نے حصہ بھی نہیں لیا یہاں تک کسی اپوزیشن لیڈر کو بھی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔

حسینہ واجد کی جیت بھارت کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شیخ حسینہ واجد کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ہم بنگلا دیش کے ساتھ اپنی پائیدار اور عوام پر مبنی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ حسینہ واجد نے انتخابی نتائج کے بعد اپنے تبصرے میں کہا کہ بنگلا دیش میں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے ہیں۔ ان کی پارٹی نے تین چوتھائی نشستیں حاصل کی ہیں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پارٹی انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تو اس کا مطلب یہ نہیںکہ وہاں جمہوریت نہیں ہے، جو تنقید کرنا چاہتے ہیں وہ تنقید کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ نے بنگلا دیش میں ہونے والے انتخابات کو ماننے سے انکار کردیا ہے برطانوی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش میں انتخابات جمہوری طریقہ کار اور قوانین کے تحت نہیں ہوئے بنگلا دیش میں خوف، تشدد اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان کی گرفتاریوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

بنگلا دیش میں مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ملک میں ترقی کی رفتار رک گئی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار نشیبی ڈیلٹا میں سنگین چیلنجز جنم لے رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات سے یہاں کے عوام کو بہت زیادہ امیدیں نہیں ہیں اور لوگوں کو خطرہ ہے کہ شیخ حسینہ کی تسلسل سے چوتھی بار حکومت معاشی حالات کو مزید خراب کرسکتی ہے۔ بنگلا دیش کا آمریت کی طرف جانا سب سے بڑے خطروں میں سے ایک خطرہ ہے۔ حکومت کے پاس ملک میں استحکام لانے کے لیے درکار پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ عالمی اقتصادی سست روی کے بعد 2022 کے وسط میں بنگلا دیش کی معیشت بدحالی کا شکار ہوگئی تھی اور توانائی کے بحران ومہنگائی میں اضافے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے پر ادائیگیوں کے توازن کا بحران پیدا ہوا اور لوگ سڑکوں پر نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بنگلا دیش کے مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں ہوسکتے جبکہ بیرونی عوامل نے مسائل میں کردار ادا کیا لیکن بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پالیسی ساز ان پر توجہ دینے یا ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ بنگلا دیش کے ڈھکوسلہ انتخابات جمہوریت کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئے ہیں اور عالمی اداروں کو انہیں فوری طور پریکسرمسترد کردینا چاہیے۔