بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں، 2019 کی پانچ اگست جو کچھ ہوا پوری دنیا اس کی گواہ ہے لیکن اب ووٹ دینے کی باری ہے لہٰذا یہ انتخابات بہت حساس نوعیت کے ہوں گے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دو گروہ ہیں ایک پاکستان سے الحاق چاہتا ہے اور دوسرا محض اقتدار کی سیاست کرتا ہے۔ پاکستان کا حامی ووٹ انڈیا کے آئین کے تحت کیے جانے والے انتخابات کو ہمیشہ رد کرتا رہا یا ان کا بائیکاٹ کرتا رہا دہلی سرکار کی ایجنٹ جماعتیں آرٹیکل 370 کو آئین کا مستقل حصہ بنانے اور اس کی مکمل بحالی کو اپنے انتخابی منشور کا اہم ایجنڈا بناتی رہی ہیں اور عوام کے جذبات کا استحصال کرکے ووٹ بھی حاصل کرتی رہی ہیں۔ ریاست کے طول و عرض میں حصول آزادی کا جذبہ گہرا تھا تو بعض ووٹر یہ سمجھتے رہے کہ آزادی تک اندرونی خودمختاری کو برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے، لہٰذا اس بات کے پیش نظر لوگ انتخابات میں ووٹ ڈالتے رہے۔ اب یہ مسئلہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ یہی موضوع آج کل سوشل میڈیا ٹرینڈ بنا ہوا ہے، جہاں سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کی اکثر سبکی ہوتی ہے، جب عام لوگ ان سے براہ راست مخاطب ہو کر ان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہیں، جو ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر گو کہ بیش تر آبادی بے زار ہے مگر عوام کے بڑے طبقے کو اس کا بھی بے صبری سے انتظار ہے کہ ان مقامی سیاسی جماعتوں کا اگلا ایجنڈا اب کیا ہو گا۔
نیشنل کانفرنس کے ایک اہم رہنما سے جب حال ہی میں ایک ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اسپیس میں پوچھا گیا کہ ابھی تک آپ آرٹیکل 370 کے سہارے تقریباً 22 برس تک کشمیریوں کے جذبہ آزادی پر شب خون مارتے رہے ہیں، چند ہفتوں کے بعد پارلیمان کے انتخابات ہونے والے ہیں تو اس بار بیچنے کے لیے آپ کی پارٹی نے کیا رکھا ہے؟ سیاسی رہنما ندامت دکھانے کے بجائے کہنے لگے کہ وہ اندرونی خودمختاری حاصل کرنے کے لیے اگلے 70 سال تک لڑیں گے۔ یہ سن کر انہیں ٹرولنگ کی گئی کہ کیا وہ اب بھی جھوٹ کے سہارے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے؟ نیشنل کانفرنس کے بانی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے جب 1947 میں انڈیا کے ساتھ مہاراجا ہری سنگھ کے الحاق کی حمایت کرکے ریاست میں اقتدار سنبھالا تھا تو وہ آئین ہند میں اندرونی خودمختاری کا وعدہ حاصل کر کے عوام کو یقین دلاتے رہے کہ انڈیا کے اندر رہ کر بھی جموں و کشمیر اپنی شناخت اور سالمیت برقرار رکھ سکتا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے یہی الاپ سات دہائیوں تک برقرار رکھا اور ووٹ حاصل کرتی رہی۔ جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی تو اس نے نیشنل کانفرنس کی اندرونی خودمختاری کے ایجنڈے کو زائل کرنے کے لیے سیلف رول کا منشور پیش کیا انڈیا کے انٹیلی جنس ادارے بھی اپنا کام دکھاتے رہے اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر گو کہ بیش تر آبادی بے زار ہے مگر عوام کے بڑے طبقے کو اس کا انتظار ہے کہ اب سیاسی جماعتوں کا اگلا ایجنڈا اب کیا ہو گا، اس وقت درجنوں سیاسی جماعتیں منظر عام پر آچکی ہیں، بی جے پی بھی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کشمیری نوجوانوں کو مختلف پروجیکٹ دے کر سیاحت اور معیشت کی بحالی کو ایجنڈا بنا کر بات کرے گی مگر جیت کا انحصار نئے انتخابی ایجنڈے پر ہو گا، جسے طے کرنا سیاسی جماعتوں کے لیے اب آسان نہیں ہو گا۔