غداری کیس: سابق جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت برقرار رکھنے کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری

316

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کی سزائے موت برقراررکھنے کے حوالہ سے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق  عدالت نے سابق صدر کے لواحقین کی جانب سے پیش نہ ہونے اورعدم پیروی کی بنیاد پر اپیل خارج کردی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جاری کیا گیا تحریری فیصلہ دوصفحات پر مشتمل ہے۔

 چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل چاری رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت 10جنوری کوکی تھی۔

 دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے بیرسٹرسلمان صفدر جبکہ ریاست پاکستان کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپیل میں جنرل(ر)پرویز مشرف نے ریاست پاکستان اور خصوصی عدالت کو پارٹی بنایا تھا۔

 فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت نے جنرل (ر)پرویز مشرف کو 17دسمبر 2019کو غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے سزاکے خلاف 16جنوری2020کو اپیل دائر کی گئی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے اس عدالت کے سامنے خود کوسرینڈر نہیں کیا اس لئے رجسٹرار آفس نے اپیل پر اعتراض اٹھایا تھا۔

 تاہم سلمان صفدر نے بتایا کہ پرویز مشرف بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوسکتے تھے۔ سلمان صفدر جنہوں نے10نومبر2023کو پرویز مشرف کے لواحقین سے رابطہ کے لئے وقت مانگا تھاانہوں نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار5فروری2023وفات پاگئے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹرسلمان صفدر نے بتایا کہ پرویز مشرف کے قانونی لواحقین کی جانب سے ان سے رابطہ نہیں کیا گیا اورانہیں وکیل بننے کی اجازت نہیںدی اور عدالت کی جانب سے جاری نوٹسز کا بھی لواحقین کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ موجودہ حالات میں لواحقین کی جانب سے عدم پیروی کی بنیاد پر اپیل خارج کی جاتی ہے عدالت نے قراردیا کہ خصوصی عدالت کی جانب سے درخواست گزار کو دی گئی سزابرقراررہے گی۔