’’قبر کا پتا بتا دو‘‘

890

۔1- ’’عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی کے مہینے میں لاپتا افراد کی تعداد میں 157 افراد کا اضافہ ہوا جس کے بعد لاپتا افراد کی مجموعی تعداد 9736 سے بڑھ کر 9893 ہو گئی ہے۔ لاپتا افراد کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 31 جولائی تک لاپتا افراد کے مجموعی طور پر 7616 مقدمات نمٹائے گئے اور 2277 مقدمات زیر التوا ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں سال اب تک جبری گمشدگیوں کے 690 کے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 615 مقدمات نمٹائے گئے ہیں‘‘۔
2- ’’بھائی اور بھتیجے کی بازیابی کا انتظار کرتے کرتے میرے والد اس دنیا سے چلے گئے جبکہ والدہ شب و روز ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے گزار رہی ہیں۔ یہ کہنا ہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خاتون سعیدہ بلوچ کا جن کے بھائی اور بھتیجا 2021 سے لاپتا ہیں‘‘۔
3- ’’دسمبر 2013ء میں عدالت عظمیٰ نے دوران حراست ہلاک ہونے پر سرکاری اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے سرحدی فوج بلوچستان کے سربراہ کو عدالت میں نہ پیش ہونے پر توہین عدالت کا اعلامیہ بھی جاری کیا۔ اس کارروائی میں عدالت نے وزیر دفاع کو 35 لاپتا افراد کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جو مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی غیر قانونی تحویل میں ہیں۔ یہ 35 افراد وہ ہیں جو مالاکنڈ نظربندی مرکز کے سربراہ کے بیان کے مطابق فوجی حکام نے بغیر قانونی کارروائی کے مالاکنڈ مرکز سے اپنی حراست میں لیے۔ وزارت دفاع نے لیت لعل سے کام لیتے ہوئے 7 دسمبر 2013ء کو 14 افراد کو پیش کیا جن میں سے صرف 6 کی شناخت ہو سکی‘‘۔
4- قاضی القضاہ نے فرمایا ہے کہ ’’ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا‘‘۔
مختلف رپورٹس اور خبروں کے مندرجہ بالا اقتباسات: ’’ماں جیسی ریاست‘‘ کی ممتا کامذاق اڑا رہے ہیں۔ ریاست کے سورماو! جس کو تم بغیر بتائے اٹھا لیتے ہو، لاپتا کر دیتے ہو، غائب کر دیتے ہو، ہوسکتا ہے کہ: وہ دہشت گرد ہو، وہ ملک دشمن ہو، وہ غدار ہو، وہ ملک و ملت کا ناسور ہو! لیکن…
لیکن جس طریقے سے ان کو لاپتا کیا جارہا ہے کیا یہ ’’ماں جیسی‘‘ کسی مہذب ریاست کے مہذب قانون کے مطابق درست ہے؟ نرالی مازن ہے جوبچوں کے لاپتا ہونے پر بے حس ہو جاتی ہے۔ کیا ملک کا لولھا لنگڑا عدالتی نظام بھی لپیٹ دیا گیا ہے کہ اس پر اعتبار کے بجائے تم خود ہی مدعی، تم خود ہی گواہ، تم خود ہی عدالت اور تم خود ہی جلاد!
کیا اٹھائے جانے والے کی ماں بھی دہشت گرد ہے؟ کیا لاپتا کیے جانے والے کی شریک حیات بھی ملک دشمن ہے؟ کیا غائب کیے جانے والے کے بچے بھی غدار ہیں؟
اپنے خود تراشیدہ اس بدترین طریقہ سزا سے تم صرف ایک لاپتا شخص کو ہی نہیں، اس کی ماں، اس کی بیوی، اس کے بچوں اور پیاروں کو ایک بہت ہی منفرد اذیت ناک سزا دیتے ہو!
برسوں بیت جاتے ہیں اور رو رو کر باپ کی آنکھیں ’’یعقوبی‘‘ ہو جاتی ہیں مگر اس کے ماں اور باپ نہیں جان پاتے کہ ان کا لخت جگر کہاں ہے، کس حال میں ہے، اس نے کیا جرم کیا ہے؟ اس کی شریک حیات نہیں جانتی کہ وہ بیوی ہے یا بیوہ ہوچکی ہے۔ اس کے سر کے سائیں کو اژدھے نے نگل لیا ہے یا مگر مچھ نے؟ وہ کسی کال کوٹھڑی میں سڑ رہا ہے یا منوں مٹی تلے پہنچا دیاگیا ہے؟ اس کی بیٹی کو نہیں پتا کہ اس کے باپ کا سایہ سلامت ہے یا وہ یتیم ہوچکی ہے؟ اس کی بہن سوچتی رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے صحت وسلامتی کی دعاکرے یا مغفرت اور آخرت میں بلندی درجات کی؟ تم ان کو عدالتوں میں لاکر عبرت کا نشان کیوں نہیں بناتے کہ ان کے عزیزوں اور قوم کو ان کے جرم اورانجام کا پتا توچلے!
تم نے کبھی ماں باپ کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کے دکھ کا سوچا ہے جو چوبیس گھنٹوں کے ہزاروں لمحات دروازے کو تکتے رہتے ہیں کہ شاید بیٹا کسی لمحے کہیں سے واپس آجائے۔ تم اس عورت کے غم کو کرب کو محسوس کر سکو گے جو برسوں راتوں کو اٹھ اٹھ کر دروازے کی طرف حسرت بھری نظروں سے تکتی اور ہر رات بستر پر بے چینی سے کروٹیں بدلتے رات گزارتی ہے۔ جو کتنے برسوں سے انتظار کی سولی پر جھولتی نہ مرتی ہے نہ جیتی ہے۔ تم اس بیٹی کی کیفیت جان سکتے ہو جسے برسوں بعد بھی بابا کے لوٹ کی امید ہے۔
ذرا سوچو! لاپتا لوگوں کو برامد نہ کرکے، یا ’’وطن کے غداروں‘‘ کو یہ سزا دے کر تم غداروں کی تعداد کم کر رہے ہو یا مزید غدار پیدا کر رہے ہو۔ کیا اس سے تمہارے خیال میں ملک قوم اور اداروں سے محبت بڑھے گی یا نفرت؟ کیا یہ طریقہ سزا دہشت گردی کو کم کرے گا یا مزید لوگوں کو دہشت گرد بنائے گا۔ کیا تمہیں احساس نہیں ہو رہا کہ اپنے پیاروں کے غم میں دبی دبی سسکیاں اب بلند آوازوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ تمہیں ترس نہیں آ رہا کہ بے بس اور مایوس لوگ اب اپنے گم شدہ عزیزوں کی زندگی یا واپسی نہیں، ان کے مدفن اور قبروں کا پتا پوچھ رہے ہیں۔ لاپتائوں کے ماں باپ اپنی موت سے پہلے اپنے جگر گوشوں کے لیے دعا کرنے کی حسرت کر رہے ہیں۔ بیوی اپنے بیوی یا بیوہ ہونے کا یقین چاہتی ہے۔ بیٹی یتیمی کی سند مانگ رہی ہے… بظاہر تم بہت طاقتور ہو۔ تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا… بس یہ کرم کرو کہ ماں باپ کو قبر کا پتا بتا دو اور آخری دعا کرلینے دو، بیوی کو بیوگی کی اور بیٹی کو یتیمی کی سند دے دو! کہ اذیت ناک انتظار سے ان کو نجات مل سکے۔ باقی حساب یوم حساب پر بے باک ہوگا کہ اصل دہشت گرد کون تھا!
وہ غائب ہوگیا، وہ غائب کردیا گیا۔ اسے کسی نے اٹھا لیا یا آٹھ کر خود ہی بھاگ گیا۔ وہ ذمے داری انہی کی ہے جنہوں نے ہر جگہ ٹانگ آڑائی ہوئی ہے! بندوں کے لاپتا ہونے کا سلسلہ دوچار ہفتے پرانا نہیں ہے، برسوں بیت گئے اس گندے دھندے کو۔ کاروبار نے تمہاری مت مار رکھی ہے۔ خلق خدا کا نقارہ بج رہا ہے، کان نہیں دل دماغ اور آنکھیں بند ہیں۔
اپنے پیاروں کی تلاش میں اسلام آباد کی سڑک پر بیٹھی بلوچ بیٹیوں کو مزید اذیت نہ دو!
ملک بندوق سے نہیں، باہمی محبت اور قانون کی حکمرانی سے جوڑ کر رکھے جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان گنوا کر بھی ہوش میں نہ آنا تشویشناک امر ہے۔
’’اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِد‘‘ (البروج: 12)
’’بے شک تیرے ربّ کی پکڑ بہت سخت ہے‘‘۔