تیسری دنیا اور جمہوریت

770

بنگلادیش میں انتخابات کے دوران وہی پرانی کہانی دہرائی گئی جو ترقی پزیر ممالک،مسلم ممالک یا تیسری دنیا کے ملکوں کا نصیب بن چکی ہے۔ کچھ پارٹیاں اقتدار پر آکر تاحیات اختیارات کے چکر میں رہتی ہیں کچھ جب راستہ نہیں پاتیں تو بائیکاٹ کرتی ہیں یا پھر ان سب کے درمیان زبردست لڑائی جھگڑے خون خرابا ہوتا ہے۔ بنگلادیش میں بھی اہم پارٹیوں نے بائیکاٹ کردیا اور حکمران جماعت نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا۔ پاکستان میں بھی ایسی ہی کہانی بنتی نظر آرہی ہے کہ کچھ پارٹیوں یا لوگوں کے لیے راستے کھلے ہیں اور کچھ کے لیے تنگ ، وجہ وہ خود بھی ہیں اور انتخابی عمل کو چلانے والے بھی۔ انتخابات سے قبل اور بعد اس گروہ پر تکیہ کرنے والے شور مچاتے ہیں احتجاج کرتے ہیں پھر اپنی باری کے انتظار میں دوسری مہم شروع کردیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی آگئی تو مسلم لیگ ٹرین مارچ شروع کردیتی ہے۔ مسلم لیگ آجائے تو پی ٹی آئی ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دے دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی آجائے تو مسلم لیگ اور پی ٹی آئی سڑکوں پر ہوتے ہیں اور ان سب کو اسٹیبلشمنٹ ہرطرح مدد دیتی ہے ، اور جب یہ تینوں اقتدار میں ہوتے ہیں تو انتخابی طریقوں، قوانین اور سہولتوں کو بہتر بنانے پر کوئی دھیان نہیں دیتے۔ اس کی وجہ بھی یہ خود ہیں کیونکہ جو اقتدار میں آتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ تاحیات اقتدار میں آگیا ہے۔ لیکن اپنی آنکھوں کے سامنے ۱۶ ماہ، ۲۱ ماہ، ساڑھے تین سال اور ٹکڑوں میں پانچ سال کی حکومت دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن بالکل غور نہیں کرتے کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوگا۔ اور جب ہوجاتا ہے تو اپنی مظلومیت کا راگ الاپتے ہیں۔ مجھے کیوں نکالا۔ سازشی تھیوری اور سائفر وغیرہ ، یہ لوگ دوسرے کو سلیکٹڈ، سلیکٹڈ پلس اور نہ جانے کیا کیا قرار دیتے ہیں۔ کوئی لاڈلا قرار پاتا ہے۔ کوئی بزعم خود فوج کا آدمی بن بیٹھتا ہے، یعنی شیخ رشید، لیکن اب ان کا یہ دعویٰ بھی ایک ہی چلے میں رفع دفع ہوگیا اب وہ بھی عوامی ہیں۔
ترقی پزیر ، مسلم ممالک یا تیسری دنیا میں ایسا کیوں ہوتا ہے یہ سوچنے کی بات بھی ہے اور اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اتفاق ہے کہ اس تیسری دنیا کے پاس پہلی دنیا کو زندہ رکھنے کے تمام تر وسائل وافر مقدار میں ہیں اگر وہ آزادانہ زندگی گزاریں تو ان کے ممالک نہایت تیزی سے ترقی کریں گے اور پھر عالمی نظام کے خدائوں سے سوال کریں گے انہیں چیلنج کریں گے اور ان سے اپنی شرائط پر تعلقات استوار کریں گے۔ اس خطرے کے پیش نظر ان ممالک میں حقیقی نمائندہ حکومت کہیں بھی نہیں بننے دی جاتی۔ امریکا میں کہا جاتا ہے کہ کوئی ’’مسٹر کلین‘‘ اقتدار میں نہیں آسکتا، کیونکہ اگر کوئی ایسا فرد آگیا تو وہ بھی اپنی اسٹیبلشمنٹ سے سوال کرے گا اور اسٹیبلشمنٹ کہیں کی بھی ہو اسے سوال برا ہی لگتا ہے۔ لہٰذا تیسری دنیا اور مسلم دنیا میں ایجنٹ ہیں یا ایجنٹ بادشاہ اس کے بعد اس سوال کی کوئی گنجائش نہین رہتی کہ یہاں جمہوریت کیوں پنپ نہیں سکی۔ جمہوریت تو ایک ایسا نظام ہے کہ اب وہ شاید کتابوں ہی میں ملے یا سرکاری رپورٹوں میں۔ ہم نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی اور سرتوڑ کوشش کی کہ اس کا سر تلاش کرلیں لیکن ہر بار وہیں پہنچے جہاں پہنچنا چاہیے۔ بس… اس سے آگے نہین۔ ورنہ وہیں پہنچا دیا جائے گا جہاں کا کسی کو پتا نہیں۔ لیکن بعض سوالات ہیں جن کے جوابات سے صورت حال واضح ہوگی۔ ایک سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے فائدہ کس کو ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی جرم کی تفتیش اسی نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ فائدہ کس کو ہوگا۔ ملک میں افراتفری، نااہل لوگوں کی حکومت، نااہل اپوزیشن اور اب تو یہ بھی یقینی بنایا جارہا ہے کہ پوری اسمبلی میں نااہل لوگ ہی آئیں۔ ان ہی میں سے حکمران اپوزیشن اور شامل باجے منتخب کیے جاتے ہیں پھر کون ہے جو سوال کرے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں انجینئرڈ الیکشن کا ملک کو کتنا فائدہ ہوا۔ کیا ہر دس سال بعد کا جائزہ لے کر یہ دیکھا گیا کہ ہر عشرے میں ملک کی معیشت، فی کس آمدنی، زرمبادلہ، برآمدات وغیرہ میں اضافہ ہوا ہے یا کمی۔ یہ سلسلہ گزشتہ تقریباً چالیس برس سے یہی سلسلہ چل رہا ہے اور ملک تنزلی کی طرف جارہا ہے۔ ہر شعبے میں تنزلی ہے، آنے والے ہمیشہ نئے یا پرانے دعوے کرکے آتے ہیں لیکن کچھ بھی کرکے نہیں جاتے۔ خرابی یہ ہے کہ بکائو میڈیا کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور ان ہی میں سے کسی ناکام پارٹی کو اقتدار تک پہنچادیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ عوام کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملتی، عوام تک حقیقی نمائندوں کو نہیں پہنچنے دیا جاتا اور عوام کو ان تک۔ ٹی وی پر صرف ان لوگوں کا تعارف آتا ہے جو کسی خاص قوت کے ہرکارے ہوں اچھے اور برے بھی ان ہی میں سے پیش کیے جاتے ہیں۔
ان سوالات کے بعد سب سے بڑا سوال تو عوام سے ہے کہ ان کو ہر پانچ برس بعد ملک کی قسمت سنوارنے کے لیے موقع ملتا ہے کہ اپنے لیے اچھے حکمران منتخب کریں لیکن وہ ایسا کیوں نہیں کرپاتے۔ الیکٹ ایبلز کیوں اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، کسی رکن قومی اسمبلی، وزیر یا وزیراعظم کا احتساب کیوں نہیں کرتے، اگر سوال کرنے کی ہمت نہیں ہے تو پولنگ بوتھ میں تو وڈیرے، جاگیردار، اسٹیبلمنٹ کا بھوت نہیں ہوتا وہاں تو اپنی مرضی کا ٹھپہ لگائیں۔ سارا الزام اسٹیبلشمنٹ پر نہ ڈالا جائے، ملک کے ساٹھ فیصد سے زائد ووٹرز الیکشن میں ووٹ ڈالنے ہی نہیں آتے، چار چھ فیصد انتخابی فہرستوں کی گڑبڑ کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ عوام اس کی جوابدہی ے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ حتمی فیصلہ بہرحال ان کا ہوتا ہے وہ اپنے فیصلے خود کیوں نہیں کرتے۔ ہمارے تجزیہ نگار، بھارت، بنگلادیش، امریکا، یورپ کے حوالے تو دیتے ہیں لیکن وہاں کے عوام کے احساس ذمے داری کو پاکستانی عوام میں اجاگر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ جب تک احساس ذمے داری اور شعور اجاگر نہیں ہوگا تیسری دنیا تیسری چوتھی دنیا ہی رہے گی۔ ایجنٹ حکمران مسلط ہوتے رہیں گے یہ صرف دعائوں سے نہیں ہوگا پہلے عمل کے میدان میں اتریں پھر دعا کریں۔