اسلام آباد:سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے نشان سے متعلق فیصلے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔
تحریک انصاف کے انٹرپارٹی انتخابات اور بلے کے نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی استدعا پر سماعت ہوئی، جس میں عدالت عظمیٰ نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ مختصر فیصلہ سنائے جانے سے قبل تحریک انصاف کے وکلا عدالت پہنچ چکے تھے۔جن میں حامد خان، بیرسٹر گوہر، علی ظفر سمیت دیگر شامل تھے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کے وکلا بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
رات گیارہ بجے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سنانا شروع کیا، جس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹڑا پارٹی انتخابات کا نوٹس 2021ء میں کیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022ء تک انتخابات کرانے کا وقت دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینے کا بتایا گیا۔ پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کا 5 رکنی بینچ بنا،جو زیر التوا ہے۔ پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کروا کر بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سےلیا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں 5 رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے۔ ایک معاملہ ایک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسری ہائی کورٹ میں نہیں چیلنج ہوسکتا۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نےکہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائی کورٹ نے مسترد کی کہ وہ ارکان ہی نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی۔ ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے تاخیر پر معذرت کی اور کہا کہ فیصلے کی کاپی اپ لوڈ کریں گے۔
ہفتے کے روز سماعت کا احوال
قبل ازیں ہفتے کی صبح سے شام تک سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت مکمل ہوئی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس دوران سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے 4 بجے ختم ہونے والا انتخابی نشانات الاٹ کرنے کا وقت رات 12 بجے تک 5 مرتبہ بڑھایا۔
ہفتے کے روز دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے اپنے ہی ارکان کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرسربراہی جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 3رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں، پی ٹی آئی وکیل
دوران سماعت تحریک انصاف کی جانب سے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی پاور ہے نہ ہی کوئی دائرہ اختیار کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کا جائزہ لے اور ان کو کالعدم قرار دے، الیکشن کمیشن کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو کسی مبینہ بے ضابطگی پر نشان الاٹ نہ کرے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں ہے اس لیے وہ آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل نہیں کرسکتا، تحریک انصاف کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 20 روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا، ہمارے پاس 10 روز تھے۔ اگر 20 دن میں الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمیشن ہماری سیاسی جماعت کو سیاست سے ہی باہر کر دیتا۔ انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے ہمارے ارکان ہی نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں کی۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، انٹرا پارٹی الیکشن کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ارکان کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملا یا نہیں، اعتراض کیا گیا کچھ ارکان کو انٹرا پارٹی الیکشن میں شمولیت کا حق نہیں دیا گیا، اکبر ایس بابر کا موقف ہے کہ وہ رکن ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ نے کہا الیکشن کمیشن نے قانونی و حقائق میں بدنیتی کی، آپ کو بدنیتی ثابت کرنی پڑے گی۔ الیکشن کمیشن نے اس وقت کارروائی شروع کی جب تحریک انصاف حکومت میں تھی، آپ تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں الیکشن کمیشن اتنا خودمختار ہے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی اس وقت کارروائی شروع کی۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے اپنے گھر میں جمہوریت نہیں چاہیے لیکن باہر جمہوریت چاہیے، سیاست ہے ہی جمہوریت، آپکو سیاست چاہیے لیکن جمہوریت نہیں چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب آپ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات رہے ہیں، پی ٹی آئی میں بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے، تحریک انصاف نے تو اپنے ہی ممبران کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی جماعت کا تو نعرہ رہا لوگوں کو بااختیار بنانا ہے ، آپ نے اپنے ہی ممبران کو حق نہیں دیا۔
ایک کاغذ کا ٹکڑا پیش کرکے نہیں کہہ سکتے کہ الیکشن ہو گئے، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا پیش کرکے یہ نہیں کہہ سکتے الیکشن ہو گئے، الزام یہ ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن محض کاغذ کا ٹکڑا ہے، آپ کے بانی چیئرمین اس وقت جیل میں ہیں، انھیں ٹرائل کا سامنا ہے، کل وہ باہر آکر کہیں گے میں تو ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں، کم از کم ممبران کو ووٹ کا حق تو ملنا چاہیے، پارلیمنٹ کا قانون کہتا ہے سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت لائیں، جن 14 لوگوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا انھیں کیوں ووٹنگ کے حق سے محروم کیا گیا۔
وکیل علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر الیکشن میں کوئی بے ضابطگی ہے تو الیکشن کمیشن کو جانچنے کا حق نہیں ہے، اگر کسی کو ہمارے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض ہے تو سول کورٹ جائیں، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اچانک سے یہ الزام لگا دینا اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو کر کچھ کر رہی ہے، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ بڑے بڑے عہدوں پر سب جانتے ہیں سیاسی جماعتوں پر کون عہدیدار ہیں، چھوٹے عہدوں پر تو لوگوں کو موقع ملنا چاہیے، اگر آپ 8 فروری کو 326اراکین کو بلامقابلہ جتوا کر لے آئیں ایسے الیکشن کو میں نہیں مانتا۔ لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے، بس بہت ہو گیا، عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی سیاسی جماعت کا سرٹیفیکیٹ یہ عکاسی کرتا ہے الیکشن ہوئے۔ آپ کی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن سے کیوں گھبرا رہی ہے، الیکشن کمیشن تو اس وقت سے کہہ رہا ہے انٹرا پارٹی الیکشن کرائیں جب آپ کی حکومت تھی۔ آپ ہمیں ایک دستاویز تک نہیں دکھا پا رہے۔ اگر 6 ماہ تک کیس چلانا ہے تو پھر فیصلہ معطل کرنا پڑے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو یا حامد خان کو کیوں نامزد نہیں کیا گیا، سب نئے نئے لوگ پی ٹی آئی میں آ گئے، پرانے لوگ کہاں گئے، جب ایک دم سے نئے چہرے آگئے، تو کیا یہ ہو سکتا ہے سیاسی طور پر جماعت کو ہتھیا لیا گیا ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا بغیر پینل الیکشن نہیں ہو سکتا، کیا یہ جمہوریت کے برعکس نہیں، چار لوگوں نے مل کر پوری سیاسی جماعت بانٹ لی، پی ٹی آئی کی فنڈنگ کا بھی 2014 سے معاملہ پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے۔ مئی 2021 سے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان سے متعلق نوٹس کیا، پی ٹی آئی نے کورونا کا بہانہ کر کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے۔ اگر جماعت میں آپ پرانے لوگ رکھیں تو ان کو تجربہ ہوتا ہے، ویسے ہی پوچھ رہا ہوں حامد خان کا زیادہ حق ہے چیئرمین بننے کا یا گوہر خان کا؟
علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے۔ ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا تھا کہ پارٹی انتخابات کیس میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے، ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا، لیکن میری جماعت کو تو عملاً تحلیل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو ہٹایا گیا اس وقت تو یہ بات نہیں کی گئی۔ دھرنا نظرثانی درخواستیں واپس لے لی گئیں، پہلے بھی آپ نے ہاؤس تحلیل کردیا، اس وقت اسمبلیاں تحلیل کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔