سندھ کے حالات حاضرہ پر ایک نظر

785

ایک عام فرد کی طرح سے راقم کو بھی ہر روز ہی اپنے گردوپیش میں ایسے بہت سارے واقعات سے سابقہ پڑتا ہے جن کے متعلق تفصیل کے ساتھ لکھنے کو جی چاہتا ہے، لیکن پھر جسارت کے ادارتی صفحہ کی تنگ دامانی کا احساس دامن گیر ہو جاتا ہے۔ شاید غالب نے بھی اسی مناسبت سے یہ شعر کہا ہو گا۔ امید ہے کہ اسے خودستائی پر محمول ہرگز نہیں کیا جائے گا۔

یہ قدرِ شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیان کے لیے

بہر کیف! اہل جسارت کا بے حد شکریہ کہ وہ گاہے گاہے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کر دیا کرتے ہیں، ورنہ تو

گھٹ گھٹ کے مرجائوں یہ مرضی مری صیاد کی ہے

(یہاں پر ’’صیاد‘‘ سے مراد حالات حاضرہ اہل اقتدار اور ارباب اختیار ہیں) صوبہ سندھ بقول کسے ’’المیوں کا دیس بن چکا ہے‘‘۔ جہاں پر لگ بھگ ہر روز ہی دل فگار المیے جنم لیتے ہیں۔ الیکشن کا دن قریب آتے ہی سندھ کے اضلاع کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور، لاڑکانہ، جیکب آباد، قمبر، شہداد کوٹ، خیرپور میرس اور گھوٹکی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ضلع شکار پور کی حدود سے سول جج امر لعل کو مع ان کے ڈرائیور اور محافظ، جب کہ مقامی گورنمنٹ کالج پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسن سومرو اور ان کے ڈرائیور کو ڈاکوئوں نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے لوٹ لیا۔ دوران واردات جب جج موصوف نے ڈاکوئوں سے اپنا تعارف کروایا تو مبینہ طور پر ڈاکوئوں نے جواباً یہ کہا کہ ’’ہماری نظر میں سب افراد برابر ہیں اس لیے بلاتاخیر جو کچھ آپ کے پاس موجود ہے ہمارے حوالے کر دیجیے‘‘۔ جب امن و امان کی صورت حال اس قدر بدترین ہو جائے تو اس سے عام افراد کو لاحق سنگین خطرات اور شدید احساس عدم تحفظ کا اندازہ بخوبی قائم کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ڈاکو صرف ضلع شکار پور اور کندھ کوٹ کشمور کی حدود سے 20 زائد افراد کو اغوا برائے تاوان (بُھنگ) کی غرض سے اغوا کر کے کچے کے علاقے میں لے جا چکے ہیں۔ نگران حکومت سندھ نے کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف کچھ عرصے پہلے جس آپریشن کا بڑے زور و شور کے ساتھ متواتر اعلان کیا تھا لگتا ہے کہ ڈاکوئوں کا اس پر رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا ہے۔ البتہ اس نام نہاد آپریشن کے نام پر محکمہ پولیس کے اعلیٰ سطح اور ضلعی افسران نے جو لوٹ مار مچائی ہے اس کا بہ کثرت ذکر سندھی پرنٹ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے کہ کس طرح سے پٹرول، خوارک، پولیس اہلکاروں کے اسپیشل الائونسز اور ٹی اے، ڈی اے، گاڑیوں کی مرمت وغیرہ کے نام پر افسران نے صوبائی خزانے کا کروڑوں روپے کا نقصان کیا ہے، محکمہ پولیس سندھ کو اب تو عوام ’’ڈیل ڈیپارٹمنٹ‘‘ بھی کہنے لگے ہیں کیوں کہ اس کے افسران اور اہلکار بجائے جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنے کے ہر ضلع میں ڈاکوئوں اور مغویوں کے مابین اغوا برائے تاوان کی رقم کے معاملے پر بڑی مہارت اور چابک دستی کے ساتھ کچھ اس انداز سے ’’ڈیل‘‘ کرواتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی اور دروغ برگردنِ راوی ڈیل کی رقم میں ایک مناسب حصہ ان کا بھی ہوا کرتا ہے۔

گزشتہ دنوں ہی یہ حیرت انگیز خبر بھی منظر عام پر آکر سبھی کو دنگ کر گئی کہ معروف بلکہ بدنام زمانہ اشتہاری ڈاکو مہر بڈانی جسے کچے کے ڈاکوں نے اپنے ہاں قید مغویوں کی آ؎زادی کے تبادلے میں ضلع شکار پور کے سابق ایس ایس پی غلام مصطفی کورائی سے رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا اسے شکار پور ضلع کے سابق ایس ایس پی ڈاکٹر امجد علی شیخ نے سی آئی اے انچارج شکارپور کے عہدہ پر بھی تعینات کر رکھا تھا یعنی ایسا تماشا بھی جہاں بلکہ ضلع شکارپور سندھ میں ہو چکا ہے کہ بدنام زمانہ ڈاکو سی آئی اے پولیس کا ایک مدت تک انچارج رہا اور اس کا اعتراف اس نے خود ہی برملا طور پر شکار پور کے صحافیوں کے سامنے کیا۔ قلم بھی یہ سب کچھ لکھتے وقت حیران سا ہوتا ہو گا لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے اور صد فی صد حقیقت بھی۔ ایک طرف سندھ میں شدید بدامنی، مہنگائی اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے تو دوسری جانب اہل سندھ کی زندگی گزشتہ کئی دن سے شدید ترین سردی اور دھند نے اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔ اس پر مستزاد بجلی اور سوئی گیس کی مسلسل عدم موجودگی اور لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی کو بہت زیادہ دشوار اور کٹھن بنا دیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین کے مطابق عوام کی روزمرہ کی زندگی کو بڑی شدت کے ساتھ متاثر کرنے والی سردی کی یہ شدید لہر اور دھند 15 جنوری تک برقرار رہے گی۔

سندھ جہاں پر جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا پہلے ہی ایک طرح جوئے شیر لانے کے مترادف ہے وہاں پر جب تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں بہ غرض تعلیم رہائش پزیر طلبہ و طالبات میں سے کسی کی پراسرار انداز میں موت کی کوئی خبر سامنے آتی ہے تو ہر کوئی غم زدہ اور دل گرفتہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ایک درجن سے بھی زائد طالبات کی چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ، آصفہ بھٹو ڈینٹل کالج لاڑکانہ، نوابشاہ میڈیکل کالج کے ہاسٹلز میں الم ناک اور پراسرار انداز میں اموات کی تحقیقات ابھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچی تھیں کہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے ایک پروفیسر اور وائس چانسلر موصوف کی حال ہی میں سوشل میڈیا پر نازیبا ترین ویڈیوز کے سامنے آنے سے سندھ بھر میں عوام کے اندر شدید غم و غصے اور تشویش کی زبردست لہر دوڑ گئی ہے۔ ہاسٹلز میں رہنے والی طالبات کی پراسرار اموات اور نازیبا ویڈیوز کے حالیہ اسکینڈل کی وجہ سے مستقبل میں سندھ کی بچیوں کی حصول تعلیم کی راہ میں مزید متعدد دشواریاں اور رکاوٹیں پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو چلا ہے جو یقینا کسی المیہ سے کم ہرگز نہیں ہو گا۔ قبل ازیں اسی یونیورسٹی میں کینجھر لغاری اور سندھ یونیورسٹی میں پروین رند کے ساتھ بھی جنسی ہراسمنٹ کے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔ پروین رند کو بڑی جرأت کے ساتھ ننگے پائوں حصول انصاف کے لیے مقامی عدالت جا پہنچی تھی۔

تعلیمی ادارے تو علم و شعور اور آگہی کے شاندار مراکز ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے انسانی روپ میں موجود بھیڑیوں نے بھی یہاں پر اپنے ٹھکانے ڈھونڈ اور بنا لیے ہیں۔ اس نوع کے سانحات کسی بھی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے کے لیے الگ بدنما داغ کی مانند ہیں، لیکن شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور تو ایک ایسی عظیم اور روحانی شخصیت کے نام سے موسوم ہے جس نے اپنی شاعری میں صنف نازک کی عظمت کے گن گائے ہیں۔ مذکورہ غیر اخلاقی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سندھ کے نگران وزیراعلیٰ مقبول باقر نے شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میرس کے وی سی پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے 3 یونیورسٹیوں کے وی سیز پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ شاہ لطیف یونیورسٹی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مسلسل احتجاج کا سلسلہ بھی گزشتہ کئی دن سے جاری ہے۔ یہ احتجاج وی سی موصوف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے سید ضمیر شاہ راشدی، پروفیسر اختیار گھمرو، حاکم پھاپوٹو، حسام الدین شیخ اور مراد پیرزادہ کی زیر قیادت کیا جارہا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ نے وی سی خیرپور پر عائد کر دی سنگین الزامات کی انکوائری کے لیے جو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے اس میں این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کی وی سی ڈاکٹر سروش لودھی، ڈائو یونیورسٹی کے وی سی سعید قریشی اور سندھ مدرسۃ الاسلام کی وی سی خیر پور خلیل ابوپوٹو کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پی پی پی کی سابق حکومت سندھ کی اہم ترین شخصیات کی آشیرباد سے وی سی خیرپور کے منصب پر فائز ہونے والے خلیل ابو پوٹو گزشتہ ایک عرصے سے سنگین نوعیت کے غیراخلاقی الزامات کی زد میں تھے اور ان کے خلاف اس حوالے سے متواتر بذریعہ میڈیا خبریں منظرعام پر آرہی تھیں۔ حالیہ غیراخلاقی نازیبا ویڈیو اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکے کے مصداق ثابت ہوئی ہے۔ اللہ ایسے اخلاق باختہ عناصر کو نشانہ عبرت بنا دے۔ آمین