۔1989 سے 2024 تک

695

۔1989 سے 2024 تک کا یہ سفر کم و بیش 34 پر محیط ہے، اس دوران بے شمار نشیب و فراز دیکھے گئے، بڈگام کی کہانی، کولگام سے مختلف نہیں اور سری نگر کی داستان بارہ مولا سے مختلف نہیں، جموں اور ڈوڈہ کے حالات اننت ناگ اور کپواڑہ سے الگ نہیں، غرض پوری وادی ایک جسم اور پورا جسم دکھوں اور درد سے چور چور ہے، کہیں زعفران بچا ہے اور ڈھل جھیل کے لشکارے بارونق رہے، پوری کی پوری وادی شہداء کے قبرستان بن کر رہ گئی ہے، پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر قبلہ قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا گیا تھا اور آج تک یہ روایت برقرار ہے، آج 34 سال ہوچکے اور ایک ماہ کے بعد پوری قوم ایک بار پھر یوم یک جہتی کشمیر منائے گی، جلسے ہوں، مظاہرے ہوں اور یہ سب تقریری مقابلوں سے کچھ زیادہ نہیں ہوگا، اسی روز شام کو سب قائدین اپنے گھروں میں جا کر سوجائیںگے اور اگلی صبح پھر وہی پرانی بات کہ رات گئی بات گئی۔
ہاں آج ہم کچھ تو جائزہ لیں، اپنا احتساب کریں، کھوٹے اور کھرے کی پہچان آج ہی کرلیں تو ہرج ہی کیا ہے؟ کون نہیں جانتا اس حقیقت کو کہ مقدمہ ہو یا جنگ اس کے اپنے پیمانے اور سلیقے اور طریقے ہیں، جو مقدمہ اور جنگ اور جو واقعی اپنی بقا کی جنگ بھی ہو، سلیقے سے نہ لڑی جائے تو اور محض دوسروں سے امیدیں وابستہ رکھی جائیں تو منزل کبھی نہیں ملتی، تاریخ اسلام کا مطالعہ کرلیں، قرآن میں ماضی کی قوموں کی حقیقت جان لیں وہاں ہمیںسب کچھ مل جائے گا، کہ کون سی قوم کس طرح تباہ ہوئی کس طرح ناکام ہوئی؟ کون نہیں جانتا کہ کشمیر آج سے نہیں ایک صدی سے جنگ کی لپیٹ میں ہے، کبھی کشمیری درخت سے لٹا دیے جاتے ہیں اور کبھی اذان دینے کی پاداش میں مارے جاتے ہیں، پلندی میں منگ کا وہ درخت آج بھی موجود ہے، یہ ایک ایسی جنگ ہے جس لاکھوں انسان قبرستانوں میں جا سوئے ہیں، لاکھوں ہجرت پر مجبور ہوئے، اتنی تعداد ہے جو بخشی خانوں کی نذر ہوئی، زیر حراست مارے جانے والے الگ سے ہیں، جائدادیں تباہ اور گھر مسمار کر دیے گئے گویا ظلم ہی ظلم، یوں سمجھ لیجیے کہ کشمیری قوم اب تعزیت کرنے اور ایام منانے والی قوم بن کر رہ گئی ہے، اور اس کی کتنی نسلیں آزادی کا سورج دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں قصور کس کا ہے؟ کیا کشمیر کے خمیر میں آزادی نہیں؟
تیس برسوں کی حالیہ جدوجہد، سینے پر گولیاں کھانے کی روایت کی بنیاد ڈالنے کے باجود آزادی کا سفر طویل کیوں؟ کچھ تو وجہ ہے مگر جدوجہد کو ترک نہیں کرنا ہے، حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں کشمیریوں کا مقدر ضرور بدلے گا چاہے دنیا کتنی ہی بدل جائے، طاقت کی زبان، نعرے اور قرارادادیں اپنی جگہ، لیکن اہل کشمیر نے جو سبق بھارت کو سکھایا ہے وہی نسلوں تک یاد رہے گا، ہاں مگر یہ بھی یاد رہے گا کہ قائدین کشمیر کا آزاد کشمیر میں رہن سہن کیسا ہے، کیسا ان کا پروٹوکول ہے، اور پھر بھی شکوے اور شکایتیں، خود احتسابی تو کریں کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے کیا کیا ہے؟ محض سیمینارز سے خطاب… اس سے زیادہ اور کیا؟ ان میں کتنے ہیں جو مظفر وانی کی راہ پر چلنے کو تیار ہیں؟ شمس الحق سے لے کر مظفر وانی تک یہ سب کس راہ پر چلے تھے کچھ یاد ہے؟ یہ سب شہداء مجاہدین کے امام ہیں اور معصوم سادہ لوح کشمیریوں کے لیے راہنمائی اور روشنی کے مینار، آج کا کشمیر کہاں کھڑا ہے آئیے اور دیکھیے اور جائزہ لیجیے اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس دماغ کی ضرورت نہیں۔
آزادی کی تحریک کے دوران شہیدوں کا لہو ہمارے ضمیر کی آواز کب بنے گا؟ اب دو ہی آپشن باقی ہیں۔ پہلا یہ کہ کشمیری قیادت ایک ہوجائے اگر باہمی اختلافات ختم نہیں کرسکتے تو پھر قیادت کے منصب سے الگ ہوجائیں اور راستہ دیں تاکہ کشمیری عوام کسی اہل کو اپنے کندھوں پر بٹھائیں اگر یہ نہ ہوا تو سن لیجیے کہ عوام خود انہیں جھٹک دیں گے، اب مصلحت، سرد مہری، اگر مگر، چونکہ چناںچہ نہیں چلے گا کشمیر عوام کا مزاج رنگ دکھانے والا ہے کوئی برداشت نہیں کرے گا کہ قیادت کے ہوتے ہوئے کشمیر کے مستقبل پر گہرے بادل چھائے رہیں، سرد مہری کا پودا تن آور درخت بن جائے، شہیدوں کے ورثاء سے لاتعلقی ختم کرنا ہوگی ورنہ یہ سارے تمغے چھن سکتے ہیں، کشمیری عوام اب کسی معجزے کے انتظار میں کسی لارنس آف عربیہ کے جھانسے میں بھی نہیں آئیں گے۔