ایک سروے رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 سے لیکر دسمبر 2023 کے اوائل تک اسرائیل نے جس شدت کے ساتھ غزہ میں فلسطینیوںکا قتل عام کیا اْس نے 75 سالہ تاریخ کا ریکارڈ توڑ دیا، مگر پوری مسلم دْنیا محو تماشا بنی دیکھتی رہی، اور مسلم حکمران فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ہم فلسطین کے ساتھ ہیں کے کھوکھلے بیانات دے کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہو تے رہے اور یہی حال پاکستان کے حکمرانوں کا بھی ہے اور عوام انتہائی جوش و جذبے اور غم و غصے کے باعث فلسطینی بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی میں اسرائیل کی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کر کے اپنے دل کو مطمئن کرنے میں لگے ہوئے ہیں، میں خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ اکتیس دسمبر کی رات میں نے اپنے طور پر ایک سروے کیا جس میں لگ بھگ پچاس لوگوں سے یہ معصومانہ سوال کیا ’’آپ اسرائیل کی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ سب کا ایک ہی جواب تھا کہ اسرائیل ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کا قتل عام کر رہا ہے، تیس ہزار مسلمانوں کے خون نہ حق کا غم کم نہیں ہوتا، جس کا ہمیں شدید دْکھ ہے، ہم کچھ کر نہیں سکتے تو کم ازکم ان کی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کر کے اْن کی معیشت کو نقصان تو پہنچا سکتے ہیں، میرے اس سوال کا جواب سب نے یہی دیا، ہم بھی ان سے متفق ہو گئے، پھر دسمبر کے آخر میں وزیر اعظم صاحب نے قوم سے گزارش کی کہ فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے نئے سال میں کوئی تقریبات منعقد نہ کریں نہ ہی کسی قسم کے اسلحہ کی نمائش اور نہ ہی آتش بازی کا مظاہرہ کریں، مگر قوم نے وزیر اعظم کے پیغام کو جوتے کی نوک پر رکھا، دوسری طرف اسرائیل نے اس رات زمینی اور فضائی حملہ کر کے نہ صرف مسجد اقصیٰ کے سابق امام شیخ یوسف کو اْن کے گھر کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا، اور اسی رات 165 فلسطینیوں کو موت کی نیند بھی سْلا دیا، اور ہم سال نو کا جشن مناتے رہے کیونکہ یہ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم بحیثیت قوم بڑے سے بڑا غم ہو اْس میں بھی اپنے لیے تفریح و طبع کا سامان تلاش کر لیتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہم کسی سے بھی مخلص نہیں ہیں فلسطین جو ہم سے ہزاروں میل دور ہے اس کا کیا غم، ہم تو اپنے ملک اور اپنے شہر میں ہونے والے کسی بھی حادثات، بم بلاسٹ، زلزلہ، سیلاب ہو، اس کو بھی چند گھنٹوں میں بھْلا دیتے ہیں، ہر طرف نفسی نفسی اور بے حسی، دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ایک ایسی قوم جو ایک ٹھوس نظریے کی بدولت معروض وجود میں آئی تھی کس قدر زوال پزیر ہے، باوجود اس کے کہ مہنگائی، لاقانونیت، سیاسی نظام، معاشی بد حالی، میں مبتلا ہے اور ایک رات میں اربوں روپے کی آتش بازی اور اسلحہ کی نمائش کردیتی ہے، یہی ہمارے معاشرتی نظام کی خرابی ہے جس نے پوری قوم کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی تسکین نفس اور خواہشات کی خاطر سب کچھ بھول جاتے ہیں، اگر ہم واقعی خود کو ترقی یافتہ اقوام میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بے حسی ترک کر کے خود کو احساس ذمے داری رکھنے والی قوم بنانا ہوگا جب ہی ہم ایک خود دار قوم اور ملک کے طور پر دنیا بھر میں اپنی شناخت منوا سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلیں کیسے ایک بہترین معاشرے کا قیام کیسے ممکن ہو، جو ہمیں ایک قوم کی صورت میں کھڑا کردے، اس کے لیے ہمیں طاغوتی نظام اور مذاہب کے چنگل سے نکلنا ہو گا اور دین اسلام کو اس ملک میں نافذ عمل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، یا اْن لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے جو اس ملک میں دین اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں، کیوں کے اللہ کا دین آیا ہی اس لیے ہے کہ نافذ ہو، اور یہی امت مسلمہ کے لیے کامیابی کا راستہ ہے جس میں انسانی زندگی کے لیے جامع احکامات، پختہ تعلیمات، توحید کے خالص نظریے، سیاسی و سماجی نظام کے اصول و ضوابط کی نشاندہی کی گئی ہے، تاکہ انسان اپنے باطن کی برائیوں، کمزوریوں کو دور کر کے ایمان، اخلاص محبت، اور اْمید نشاط کے جذبوں سے آراستہ ہو کر ایک بہترین مسلمان بن کر دنیا کو غربت و جہالت ظلم، نا انصافیوں، جبر و تسلط کے فریب سے نکال کے ایک بہترین معاشرہ فراہم کر سکے، اگر ایسا نہ کیا تو دْنیا کے 1 کروڑ 45 لاکھ یہودی ہمیشہ 2 ارب سے زائد مسلمانوں پر غالب رہیں گے کیونکہ ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ پروردگار ہمیں دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرما، بیشک تیرا دین امن و انصاف پر مبنی ہے، ہم بھی امن سے رہنا چاہتے ہیں اور دنیا میں امن دیکھنا چاہتے ہیں۔