اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ بحال کردیا۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اپیل خارج کردی۔
سزائے موت کے خلاف اپیل پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 4 رکنی بینچ نے کی۔ لارجر بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
دوران سماعت وکیل حامد خان نے اپنے دلائل دیے۔ جس کے بعد عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو دلائل دینے کا کہا۔وفاقی حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی مخالفت کی گئی۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے اہلخانہ سے کوئی ہدایات نہیں۔ اہلخانہ کو کیس کے بارے میں علم ہے۔ نومبر سے ابھی تک 10 سے زائد مرتبہ رابطہ کیا ہے۔ کیس کے بارے میں حق میں یا خلاف کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔ میں پرویز مشرف کے اہلخانہ کی نمائندگی نہیں کر رہا۔
بعد ازاں دلائل سننے کے بعد عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف (مرحوم) کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت بحال کردی۔ عدالت نے کہا کہ کوشش کے باوجود پرویز مشرف کے قانونی ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ عدالت نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کردی۔
عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق عدالتی کارروائی کے بارے میں پرویز مشرف کے ورثا کو مطلع کرنے کے لیے ان کے ملکی و غیر ملکی رہائشی پتوں پر نوٹس دیے گئے۔ اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی اشتہار دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کے سامنے دو سوالات تھے۔ کیا مرحوم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپیل سنی جا سکتی ہے، پہلا سوال۔ اگر سزائے موت برقرار رہتی ہے تو کیا مشرف کے قانونی ورثا مرحوم کو ملنے والی مراعات کے حقدار ہیں، دوسرا سوال۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ متعدد بار کوشش کے باوجود بھی مشرف کے ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کہ سزائے موت برقرار رکھیں۔