مہنگائی، بیرون ملک روزگار اور آسان زندگی

818

جب سے پاکستان میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عمل ہونا شروع ہوا ہے مہنگائی بد سے بدترین اور جاں لیوا ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے کے نتیجے میں اشیا کی قیمتوں میں فوری اضافہ ہو جاتا ہے، اس کے بر عکس اگر پٹرول کی قیمت میں کمی واقع ہوتی ہے تو بڑھی ہوئی قیمتوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے میں بمشکل ہی کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے لوگ اور خاص کر نوجوان اپنے ملک ہی میں پرسکون اور آسان زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں نہ سکون میسر ہے اور نہ چین، عام لوگ بنیادی سہولتوں سے ہی محروم ہیں، بجلی اور گیس کی گھنٹوں کی بندش کے باعث لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں، گیس کی فراہمی میں تعطّْل کی وجہ سے بچوں اور بزرگوں کو وقت پر کھانے کی فراہمی ایک مسئلہ ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اس مہنگائی میں بازار سے کھانا لانا پڑ رہا ہے۔ سردی اور گرمی میں موسم کی سختیوں سے بچاؤ کے لیے لوگ پریشان ہیں اس لیے کہ روم کولر، اے سی اور ہیٹر کے استعمال کے نتیجے میں بھاری بلوں کی ادائیگی بھلا کون برداشت کرسکتا ہے، بلوں میں ’’سلیب سسٹم‘‘ کے ظالمانہ نظام اور آئے دن بجلی کی قیمتوں کے اضافہ نے لوگوں کا سکون اور چین چھین لیا ہے، بروقت بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے متعلقہ محکمہ کنکشن منقطع کر دیتا ہے، اس کے برعکس بڑے بڑے لوگ بجلی کی چوری بھی کرتے ہیں اور بلوں کی ادائیگی بھی بروقت نہیں کرتے، یہ ہر دور میں اتنے بارسوخ ہوتے ہیں کہ کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ان کے کنکشن منقطع کر دے، جگہ جگہ لگا ہوا کنڈا سسٹم یہ باور کرا رہا ہوتا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ یہاں غریب اور چھوٹے طبقہ کے لیے علٰیحدہ قانون ہے اور بااثر طبقات کے لیے علٰیحدہ قانون۔ اشرافیہ، بیوروکریسی، فوج، عدلیہ یا دوسرے اداروں سے متعلقہ افسران، یہ مراعات یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان مسائل اور مشکلات سے ان کا واسطہ ہی نہیں۔

عام لوگوں کی زندگی میں آسانیوں سے محرومی کا بجلی اور گیس کے حوالے سے صرف ایک پہلو ہی نہیں اور بھی کئی قابل ذکر پہلو ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے روز مرہ کے استعمال میں آنے والی بنیادی انسانی ضروریات مثلاً آٹا، چینی، تیل، سبزیاں، پھل، دالیں اور گوشت وغیرہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ شاہراہوں اور مارکیٹوں میں عام افراد کبھی اکیلے اور کبھی بچوں کے ساتھ اپنے ہی جیسے لوگوں کو بے تحاشا اور کبھی بے جا خریداری کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ معصوم بچوں کو اپنی مجبوریاں بتا اور سمجھا سکتے ہیں، سوائے وقتی طور سے بہلانے کے سوا وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ علاج معالجہ، آمد و رفت، تعلیم اور خوشی غمی وغیرہ اسی زندگی کے اور دسیوں وہ پہلو ہیں جن سے عام آدمی کو روزانہ کی بنیادوں پر سابقہ پیش آتا ہی رہتا ہے۔ ان حالات کا سر دست وہی طبقہ مقابلہ کر سکتا ہے جو تجارت پیشہ ہے یا اونچا تنخواہ دار یا مراعات یافتہ ہے یا جس نے آمدنی کے غلط ذرائع اپنا رکھے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں بڑی تعداد میں لوگ تلاش روزگار کے لیے مجبوراً ملک سے باہر جانے کے خواہش مند ہیں تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں اور والدین کے لیے زندگی میں آسانیاں لا سکیں، اس کے لیے چاہے وہ کوئی بھی طریقہ یا حربہ استعمال کر کے بیرون ملک کے ویزے اور پرمٹ حاصل کر سکیں، چاہے اس کے لیے انہیں غیر قانونی راستوں کے ذریعہ خطیر رقم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کنٹینروں کشتیوں اور ٹرک کے نچلے حصے میں لیٹ اور لٹک کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر بارڈر کراس کرنے کے مراحل پیش آئیں۔

بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں ماہ نومبر تک پوری دنیا میں 50 سے زیادہ ممالک میں کل 805088 پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے گئے، سب سے زیادہ جانے والے 10 ممالک میں پہلے نمبر پر سعودی عرب میں 392017 (تقریباً 50 فی صد (دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات میں 221763، (تقریباً 27 فی صد)، تیسرے نمبر پر سلطنت عمان میں 55107 (تقریباً 7 فی صد)، چوتھے نمبر پر قطر میں 52294 (تقریباً 6 فی صد)، پانچویں نمبر پر ملائیشیا میں 20411 (تقریباً 2.5 فی صد )، چھٹے نمبر پر برطانیہ میں 14394، (تقریباً 2 فی صد)، ساتویں نمبر پر بحرین میں 12162 (تقریباً 1.5 فی صد)، آٹھویں نمبر پر رومانیہ میں 4874 (تقریباً 0.6 فی صد)، نویں نمبر پر عراق میں 3797، (تقریباً 0.5 فی صد)، دسویں نمبر پر یونان میں 2874 (تقریباً 0.35 فی صد) لوگ روزگار کے لیے گئے۔ 5 ممالک ایسے ہیں جہاں 10 سے کم تعداد میں لوگ روزگار کے لیے گئے، ان میں مراکو، ترکمانستان، ٹیونیشیا، سیریا، سرِی لِوْن شامل ہیں، اگر امریکا کی بات کی جائے تو صرف 821 افراد جب کہ چین صرف 1690 افراد روزگار کے لیے گئے۔

دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، اس محاورے کا اندازہ تو روز گار کے لیے جانے والے اکثر پاکستانیوں کو بیرون ملک پہنچتے ہی بخوبی ہو جاتا ہے۔ اس میں سب سے تلخ حقیقت تو یہ ہوتی ہے کہ ان کی اکثریت اپنے پیاروں سے ایک طویل عرصے کے لیے علٰیحدہ ہو جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بوڑھے والدین جو عمر کے اس حصہ میں واقعتاً کسی سہارے کے ضرورت مند اور محتاج ہوتے ہیں ان کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے اور پھر ایک اور تلخ حقیقت کہ اکثر افراد کو بیرونی ممالک میں جس قسم کے کام کرنے پڑتے ہیں وہ نہ ان کے مزاج کے مطابق ہوتے ہیں اور نہ انہوں نے اس طرح کی نوکریوں کا کبھی گمان بھی کیا ہوتا ہے، لیکن اطمینان کا ایک پہلو بھی ہے کہ روزگار کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے سے کچھ نہ کچھ اشک شوئی تو بہرحال ہو ہی جاتی ہے کہ اس طرح بیرون ملک جانے والوں کے اہل خانہ کی زندگی میں کچھ آسانیاں تو آ ہی جاتی ہیں۔ اگر وہ اسی طرح کے کام اپنے وطن میں بالمحال کر بھی لیں لیکن اس کے عوض جو معاوضہ ملتا ہے وہ اتنا ہی ہوتا ہے کہ یا تو بمشکل گھر کا کرایا، یوٹیلٹی بل یا اس کا بھی کچھ حصہ ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے لیکن روزانہ کا کھانا پینا و دیگر اخراجات کہاں سے آئیں گے؟۔

انتخابات کا دور دورہ ہے اور سیاستدانوں نے جھوٹے وعدوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا ہے جس میں سے ایک روزگار یعنی نوکریوں کا وعدہ ہے۔ بیروزگاری سے تنگ عوام نہ ماضی میں کیے گئے وعدوں کے عملی پہلوؤں کی طرف جاتے ہیں اور نہ ان کا حافظہ اتنا ہے کہ الیکشن 2024 کے انعقاد کے موقع پر وہ سابقہ حکمرانوں کا احتساب کر سکیں کہ گزشتہ 2018 کے الیکشن میں عوام سے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے جو وعدے کیے تھے وہ کہاں رکھے ہیں؟، اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو ہر الیکشن کے موقع پر سیاستدان سہانے خواب دکھاتے ہیں۔ حالات جس سمت جا رہے ہیں اس سب سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ شاید بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والوں کی قطار طویل سے طویل تر ہوتی جائے گی۔