فاروق عادل سے یک طرفہ تعلق کی کہانی تو بہت پرانی ہے، اتنی ہی جتنی ان کے تکبیر سے تعلّق کی کہانی۔ یہ یک طرفہ تعلّق فیس بک کی بدولت اس وقت دوطرفہ تعلقات میں بدل گیا جب میں نے ’’جسارت‘‘ میں ’’نقّارہ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ فاروق عادل ایک جرأت مند صحافی ہیں۔ زبان و بیان پر ان کی گرفت انہیں ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہے صدر ممنون حسین کے ساتھ قصر صدارت میں قیام نے انہیں اقتدار کی غلام گردشوں سے سرگوشیوں کا موقع عطا کیا۔ اگر دیواروں کے کان ہوتے ہیں تو یقینا ان کی زبان بھی ہوتی ہوگی… ضرورت صرف گوش نصیحت نیوش کی ہے۔ فاروق عادل نے تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق کو 32 ابواب میں تقسیم کرکے 422 صفحات پر مشتمل تفصیل کے ساتھ لکھ کر ’’ہم نے جو بھلادیا‘‘ کے عنوان کے ساتھ پیش کیا ہے۔ میں اس کتاب کو پاکستان کو مستحکم کرنے کے خواہش مندوں کے لیے زاد راہ سمجھتا اور ذاتی طور پر فاروق عادل کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس کتاب کے مختلف ابواب کو مطالعہ پاکستان کے نصاب کا حصّہ بنا دیتا۔ پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین نے کتاب کا مقدمہ ’’تاریخ کی نئی تعبیر و توضیح‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ تاریخ کے اس جبر کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایک بار رونما ہونے والا واقعہ بظاہر پتھر پر لکیر بن جاتا ہے لکھتے ہیں کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان حالات پر نگاہ ڈالیں تو ان کی کوئی نئی تعبیر سامنے آجاتی ہے۔ تاریخ پر پلٹ کر نگاہ ڈالنے کا عمل اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندگی کے لیے سانس لینے کا عمل۔
مصنف نے ’’ماجرا‘‘ کے عنوان سے کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے جس میں انہوں نے ان مضامین کے پس منظر اور انہیں لکھنے کے دوران واردات قلبی کا ذکر ’’حیرتوں کے پہاڑ‘‘ کے طور پر کیا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن یہ شہ رگ کس طرح ہمارے ہاتھ سے نکلی، کس طرح غیر منظم قبائلی لشکروں نے گلگت، بلتستان اور کشمیر کے ایک حصّے پر قبضہ کرکے اسے ڈوگرہ راج سے نجات دلائی۔ ’’کشمیر کے وہ چار دن‘‘ میں ہمیں یہ تفصیل ملتی ہے کہ جنرل گریسی نے قائداعظم کے احکامات پر عمل کرکے فوج کو متحرک کرنے کے بجائے پاکستان اور بھارت کے مشترکہ کمانڈر فیلڈ مارشل آرٹ لیک سے رجوع کیا جنہوں نے انہیں کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا۔ اگر مجاہدین کو پروفیشنل آرمی کی پشت پناہی حاصل ہوجاتی تو 24 گھنٹوں میں بھارت کے لیے کشمیر میں داخلے کے راستے بند ہوحاتے اور سرینگر مجاہدین کے قدموں میں ہوتا۔ ’’سندھی مہاجر کشمکش کی پہلی اینٹ‘‘ ایک دل دہلادینے والی کہانی ہے۔ کراچی بانیان پاکستان کی زندگی میں ہی ایک حساس معاملہ بن جاتا ہے۔ سندھ حکومت وفاقی حکومت کو سیکرٹریٹ اور رہائش گاہیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن یہ معاملہ ایک ایسی کشمکش میں تبدیل ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ سندھ کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ فاروق عادل کے اس تجزیہ کے ساتھ میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے وزیراعظم لیاقت علی خان کی جو تصویر بنائی گئی ہے وہ افسوسناک ہے۔ لیاقت علی خان ایک نواب تھے جنہوں نے کرنال میں اپنی زمینوں اور جائداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا تھا۔ انہوں نے دہلی میں اپنی ذاتی رہائش گاہ پاکستانی سفارتخانے کو وقف کردی تھی۔ ان کے ذوق جمال کا تماشا بنانا یقینا کم ظرفی کی دلیل تھی۔ کتاب کے مطالعے سے لگتا ہے کہ اگر ایوب کھوڑو کو تبدیل نہ کیا جاتا تو سندھ بالخصوص کراچی میں مہاجرین کی آبادکاری اتنی آسان نہ ہوتی۔
فاروق عادل نے جسٹس محمد منیر کی طرف سے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے کو ’’انصاف کا قتل‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں جگتو فرنٹ کی کامیابی کے بعد انتخابی نتائج کے خوف کے علاوہ مسلم لیگ کو خواجہ ناظم الدین کی غیر آئینی برطرفی کا بھی صدمہ تھا۔ مسلم لیگ چاہتی تھی کہ گورنر جنرل آئندہ ایسا کوئی اقدام نہ کرسکیں چنانچہ 21 ستمبر 1954 کو اسمبلی نے گورنر جنرل کے اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کی برخواستگی کے اختیارات سلب کرلیے۔ گورنر جنرل نے 23 دن بعد ہنگامی حالات کا نفاذ کرکے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد جو کابینہ بنائی گئی اس میں کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ سیاستدانوں کے خلاف ’’مارشل آرٹ‘‘ کا پہلا رائونڈ تھا۔ اس کھیل کے آخری رائونڈ کا آخری پنچ 7 اکتوبر 1958 کو 1956 کے آئین کی
تحلیل اور جنرل محمد ایوب خان کی قیادت میں مارشل لا کا نفاذ تھا۔ ’’ون یونٹ اور یونٹی‘‘ اس قصّے کا عنوان ہے جو ون یونٹ کی تشکیل اور تحلیل سے متعلق ہے۔ نئی دستوریہ سے منظور کیے گئے اس بل کے تحت جو 14 اکتوبر 1955 کو نافذالعمل ہوا، مغربی حصّے میں صوبہ پنجاب، صوبہ سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ، ریاست بہاول پور، ریاست سوات، ریاست قلات اور ریاست خیرپور نیز بلوچ اور پشتون قبائلی علاقوں پر مشتمل ون یونٹ تشکیل دے کر مشرقی اور مغربی پاکستان میں مساوات قائم کرکے وفاق میں برابر کی نمائندگی دینے کا فیصلہ ہوا۔ اس موقع پر وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے بنگالی لہجے لیکن اردو زبان میں کہا ’’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، بلوچ، نہ بہاولپوری نہ خیرپوری، اگر کوئی رہے گا تو وہ ہوگا پاکستانی اور صرف پاکستانی‘‘ اس ون یونٹ کو سموئے ہوئے پہلا آئین 23 مارچ 1956 کو نافذالعمل ہوا لیکن اس کے مطابق انتخابات کی نوبت ہی نہ آسکی یہاں تک کہ 7 اکتوبر 1958 کو آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ 1962 میں نافذ ہونے والے صدارتی دستور میں مساوات کا نظام قائم رہا لیکن 25 مارچ 1969 کو مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اپنے پہلے اعلان ہی میں ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے مطابق ریاست بہاول پور کو پنجاب، ریاست خیرپور اور کراچی کے وفاقی علاقے کو سندھ، ریاست سوات کو شمال مغربی سرحدی صوبہ کا حصہ بنادیا گیا۔ ریاست قلات، بلوچ قبائل اور سابقہ برٹش بلوچستان کے علاقوں پر مشتمل ایک نیا صوبہ بلوچستان قائم کردیا گیا۔ (جاری)