ہمارے آئین میں آرٹیکل62 اور 63، ضیاء دور میں آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے شامل کیے گئے، اور ضیا الحق ہی نے پہلی اسمبلی توڑی کہ اسمبلی کے ارکان اور ورزاء اور حکومت کرپٹ ہیں، لیکن اگلے ہی روز ضیاء الحق نے جونیجو کابینہ کے تمام وزراء اپنی کابینہ میں شامل کرلیے، جس پر جونیجو نے بیان دیا کہ لگتا ہے کہ پوری اسمبلی اور حکومت میں ایک صرف وہ ہی کرپٹ تھے، آرٹیکل 62 کہتا ہے کہ امیدوار کے لیے صادق اور امین ہونا لازمی ہے جس کی تعریف بھی آئین میں دی گئی ہے، اگر کوئی امیدوار اس معیار پر نہیں ہوگا تو آر او اس کے کاغزات نامزدگی مسترد کردے گا اور وہ امیدوار انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوگا، اب آرٹیکل63 کیا ہے؟ یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ اگر کوئی منتخب رکن پارلیمنٹ، منتخب ہوجانے کے بعد ایسے کسی فعل میں مبتلا ہوتا ہے جو صادق اور امین کی تعریف میں نہیں آتا تو وہ منتخب رکن پارلیمنٹ سے ڈی سیٹ کردیا جائے گا، لیکن ضیاء صاحب نے کرپشن کا الزام لگا کر اسمبلی فارغ کی تھی تاہم کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے پر کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا تھا، بلکہ پوری کابینہ ہی اپنی صدارت میں بحال کردی تھی۔
اب آتے ہیں کہ انتخابی اخراجات کی طرف، اس کے لیے ایک حد مقرر کی گئی ہے، ایواب خان کے صدارتی دور میں جب بنیادی جمہوریت کا انتخاب ہوا تو اس وقت امیدوار کے لیے لازم تھا کہ وہ دو ہزار کی حد تک اخراجات کر سکتے ہیں، ضیاء کے دور میں امیدوار کے لیے یہ حد پانچ لاکھ تھی، راولپنڈی میں ایک معروف وکیل حبیب وہاب الخیری، نے شیخ رشید احمد کے مقابلے میں الیکشن لڑا، تاہم انہیں شکست ہوئی وہاب الخیری نے شیخ رشید احمد کے خلاف انتخابی اخراجات میں حد سے زیادہ اخراجات کا کیس عدالت میں دائر کیا، آج تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا، اور حبیب وہاب الخیری دنیا فانی سے رخصت ہوچکے ہیں اور شیخ رشید احمد اس کے بعد متعدد بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور کابینہ کے وزیر رہ چکے ہیں، تاہم کیس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا، باقی آرٹیکلز کو چھو ڑیں، اگر ان دو پر ہی عمل درآمد ہوجائے تو کیا تبدیلی نہیں آسکتی؟ آ سکتی ہے مگر کون کرے گا یہ کام؟ سیاسی افراتفری اور قانونی پیچیدگیوں سے مسائل بڑھ رہے ہیں کم نہیں ہورہے۔
اگر مختصر نظر ڈالی جائے تو صرف وہی لوگ انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں جو یا تو خود امیر ہوتے ہیں یا پھر انہیں اقتدار میں موجود اشرافیہ کی حمایت حاصل ہو، یا پھر ایک عام آدمی کی قسمت چمکے اور ایک وسائل رکھنے والی جماعت اسے اپنی جانب سے انتخابات میں کھڑے ہونے کا موقع دے دے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت کم ہوتے ہیں، الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے 30 ہزار جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے 20 ہزار سیکورٹی ڈپازٹ یا نام زدگی فیس ہے۔ اگر امیدوار اپنے متعلقہ حلقوں میں 25 فی صد سے کم ووٹ حاصل کریں گے تو یہ رقم حکومت ضبط کرلے گی۔ 2018ء 6 ہزار امیدوار 25 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے جن کی جمع کردہ رقوم ضبط ہوگئیںجس دن امیدوار اپنے کاغذاتِ نام زدگی جمع کرواتے ہیں اسی دن سے الیکشن کمیشن کے قواعد اس پر لاگو ہوجاتے ہیں قانون کے مطابق امیدوار کو انتخابی مہم کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے ایک مخصوص بینک اکاؤنٹ کھولنا اور کاغذات نام زدگی میں اکاؤنٹ نمبر درج کرنا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2022ء میں انتخابی عمل میں مالیاتی انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے مالیاتی ونگ تشکیل دیا تھا تمام امیدوار جانچ پڑتال کے لیے اپنے تمام اخراجات کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع تمام ادائیگیاں اسی اکاؤنٹ سے کرنے کے پابند ہیں بہت سے ایسے امیدوار ہیں جو کروڑوں خرچ کرتے ہیں اور پکڑے بھی نہیں جاتے اخراجات کی حد کا مذاق اراتے ہیں الیکشن کمیشن کو اسے حقیقت پسندانہ بناکر جانچ پڑتال کر بنی چاہیے ورنہ اس خیال کو چھوڑ دے گزشتہ 60 سال سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے اخراجات کی حد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
2013ء اور 2018ء میں کیے جانے والے انٹرویوز اور مارکیٹ سرویز سے نشان دہی ہوئی کہ اس عمل کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے طے کی گئی حد کی کوئی پابندی نہیں کرتا باخبر اندازوں کے مطابق 2008ء کے بعد سے ہونے والے 3 عام انتخابات میں امیدواروں نے الیکشن کمیشن کی طے کردہ حد سے 10 گنا زیادہ رقم خرچ کی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں 4 لاکھ کی حد مقرر تھی جبکہ قومی اسمبلی کے امیدواروں سے اوسطاً 4 کروڑ خرچ کیے۔ صوبائی اسمبلی کے لیے یہی حد 2 لاکھ تھی جبکہ کسی امیدوار نے بھی 2 کروڑ سے کم رقم خرچ نہیں کی۔ حیرت ہوتی ہے کہ الیکشن کمیشن وہ سب کیوں نہیں دیکھ سکتا جو نابینا شخص کو بھی نظر آرہا ہے الیکشن کمیشن کی اس معصومانہ کیفیت کی وجہ سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے پاکستان میں انتخابات منافع کمانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔