کچھ دن پہلے کی خبر ہے کہ ویتنام کا 80 سالہ شہری تھائی نوگ پچھلے 60 برس سے سویا نہیں ہے۔ دنیا کے لیے یہ تعجب اور پریشانی والی خبر ہوگی ہمارے لیے نہیں!
اندازہ ہے کہ جب پاکستان بنا تو یہ بزرگ ویتنامی تھائی نوگ تقریباً چھے سات سال کا ہوگا۔ یہ بندہ پاکستان بننے کے پندرہ سال بعد ایسا جاگا کہ اس وقت سے اب تک مسلسل جاگ رہا ہے۔ نہیں معلوم کہ کس گڑبڑ یا ڈر کی وجہ سے یہ شخص 60 سال سے سویا نہیں۔ دوسری طرف پاکستانی قوم کی مستقل مزاجی دیکھیں کہ پچھتر سال سے اپنی آزادی، خود مختاری، معیشت، ووٹ اور مینڈیٹ کے سب قیمتی گھوڑے گدھے بیچ کر مست سورہی ہے، جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ دو انتہائیں ہیں کہ تھائی نوگ ساٹھ سال سے سویا نہیں اور ہم پاکسانی پچھتر سال سے کبھی من حیث القوم جاگے نہیں!
انگریزوں اور ہندوئوں جیسے دشمنوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کا بن جانا جہاں جدید دنیا کا بہت بڑا اور ناقابل یقین معجزہ ہے وہیں مفاد پرست، بد دیانت سیاستدانوں، اقربا پرور شریفوں، زرداریوں، نیازیوں، تیسرے نمبر کی کرپٹ ترین عدلیہ، کاہل، عیاش اور کرپٹ ترین بیوروکریسی، دوسرے ملکوں میں اثاثے اورجائدادیں بنانے والے جرنیل اور ججوں، فرقہ پرست علماء اور اپنے اچھے برے سے بے خبر غافل عوام کے ساتھ اس ملک کا زندہ چلنا ایک بہت بڑا عجوبہ ہے۔
پاکستان بنانا جان جوکھم کا کام تھا۔ پاکستان ہم نے بنا بھی بہت جلدی جلدی لیا۔ اتنا جلدی کہ اتنے وقت میں تو مزدور ڈیڑھ فٹ چوڑی دس فٹ اونچی مٹی کی دیوار نہیں بناتا جتنے وقت میں ایک ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بنا لیا۔ جلدی کی وجہ سے محنت بہت کرنی پڑی اور سخت محنت کی وجہ سے تھک کر پاکستان کو بانی پاکستان کے حوالے کر کے ہم سو گئے۔ پاکستان جب بن گیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ تو کافی بڑا بن گیا ہے۔ اتنا بڑا پاکستان ہم سے جب سنبھالا نہ گیا تو کچھ عرصے بعد ہم نے اسے ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کہہ کر آدھا آدھا تقسیم کرلیا۔ بانی پاکستان نے بھی پاکستان بنانے میں اچھی خاصی محنت کی تھی۔ پاکستان بناتے بناتے اور اسے چلاتے ہوئے وہ بھی اتنا تھک گئے کہ ایک سال بعد ہمیشہ کے لیے ’’سوگئے‘‘۔ قائد کی وفات پر ہمت کرکے قوم اٹھی، ان کا جنازہ پڑھا، مغفرت کی دعا کی اور لمبی تان کر سوگئی۔ چار پانچ سال بعد جب پتا چلا کہ قائد کے دست راست اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو کسی نے قتل کردیا ہے تو قوم کو جھٹکا سا لگا، کچھ دیر کے لیے جاگی، اس حادثے پر روئی پیٹی، لیاقت علی خان کا جنازہ پڑھا اور پھر سوگئی!
جب بابائے قوم اور لیاقت علی خان دونوں ہی نہ رہے اور قوم بھی سو گئی تو ’’چھوٹے‘‘ سیاستدانوں نے کرسی کرسی کا بڑا کھیل شروع کردیا۔ سیاستدانوں کو کرسی کے کھیل میں اور قوم کو گہری نیند میں غافل پاکر چلاک چوکیدار نے گھر پر قبضہ کرلیا۔ قوم نے ذرا سی آنکھ کھول کر دیکھا تو چوکیدار کے پاس بہت مضبوط ڈنڈا نظر آیا۔ قوم ڈنڈے کے ڈر سے دبک کر ایسی سوئی کہ سات سال تک ہوش ہی نہ آیا۔ پھر ایک رات ہمارے دشمن نے جنگ چھیڑ کر قوم کی نیند خراب کردی۔ پورے سترہ دن تک جاگنے ہرے لباس میں ملبوس فرشتوں کو دشمن کے بم پکڑتے دیکھ کر اور اپنے مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے بعد ایوب شاستری معاہدے سے بد دل ہو کر قوم ایک بار پھر لمبی۔ سوگئی۔ پانچ سال بعد پھر اندرونی جمع بیرونی سازش اور جنگ میں الجھ کر ملک دولخت ہوگیا لیکن اس بڑے حادثے پر قوم نہ جاگ سکی۔
پھر تقریباً کچھ سال بعد ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے گھن چکر میں مہنگائی بہت بڑھ گئی۔ کسی نے مہنگائی اور نظام مصطفی کے نام پر ایک دفعہ پھر قوم کو جگایا اور قوم واقعتاً جاگ بھی گئی۔ لیکن نظام مصطفی کی مہم چند دنوں بعد ہی اغواء ہوگئی اور قوم پھر گیارہ سال کے لیے سلا دی گئی۔
تھائی نوگ کا ساٹھ سال جاگتے رہنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ حیرتناک تو یہ ہے کہ اس دنیا میں ہم ایک پوری قوم ہیں جو سوئے سوئے تین کروڑ سے تیئس کروڑ ہوگئی، مگر جاگی نہیں! خبر کی مزید تفصیلات کے مطابق ویتنام کے80 سالہ تھائی نوگ کا کہنا ہے کہ نوجوانی میں اسے بخار ہوا تھا، جب بخار اترا اس کے بعد سے اس کی نیند اڑ گئی۔ تھائی نوگ کا بخار اس کی نیند لے گیا جبکہ ہمارا کثیر جہتی’’خمار‘‘ ہماری بے داری دبائے بیٹھا ہے۔ دیکھا جائے تو جب پاکستان بنا تھا اگر اس کے والدین اسے اس وقت ہمت کر کے پاکستان بھیج دیتے تو وہ یہاں آتے ہی سو جاتا اور مسلسل جاگنے کے مسئلے سے یقینی طور پر بچ جاتا اور اب تک مزے سے سویا رہتا۔ پون صدی سے بے سدھ اس قوم کے ’’اپنے‘‘ اور اغیار اس کا بہت کچھ لوٹ کر لے گئے لیکن یہ بے فکر خراٹے لیے جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق تھائی نوگ کی اہلیہ، بچوں، دوستوں اور پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ ’’انہوں نے کبھی بھی اسے سوتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن اس کی زندگی پر بے خوابی کے مضر اثرات نہیں پڑتے‘‘۔ نوگ پر ساٹھ سال رت جگے کے مضر اثرات نہیں پڑے تو ہماری صحت پر بھی پون صدی سونے سے کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ کچھ لوگ ہمیں وقتاً فوقتاً جگانے کے جتن کرتے رہتے ہیں لیکن ہم نے Do not disturb کا بورڈ لگا دیا ہے۔
ابھی کل کی بات ہے جماعت اسلامی نے بجلی بلوں اور مہنگائی کے ظلم کے خلاف قوم کو جگانے کی کوشش کی مگر جماعت کی یہ کوشش بے سود رہی! قوم نے احتجاج میں شامل ہونے کے بجائے نیند کو ترجیح دی۔ آنے والے الیکشن
میں کراچی کے بلدیاتی الیکشن کی طرز پر چوری چکاری اور ووٹ کی لوٹ مار کے روشن خدشات موجود ہیں۔ مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے قوم کو جگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اس کا جاگنا مشکل لگ رہا ہے۔
بھائی نوگ! میری مانو چھوڑو ویتنام کو۔ اگر نیند عزیز ہے تو فوراً پاکستان چلے آو! تمہیں ایسا سلائیں گے کہ فرشتے بھی تمہیں قبر میں لے جاکر ہی جگا سکیں گے۔ ہم تمہیں ریاست مدینہ کے سہانے خواب دکھائیں گے، فرقہ پرستی کی مے اور لسانیت، برادری، قومیت اور قبیلے کی بھنگ پلائیں گے، شخصیت پرستی کی افیون دیں گے۔ لیڈروں کے سحر میں ڈال کر تمہاری عقل کو ماوف اور بصیرت کی آنکھیں بند کردیں گے، عقیدے کے خول میں بند کرکے تمہاری مت مار دیں گے، مسلک کی تنگ نظر بستی میں بسا کر تمہیں مست اور مدہوش کردیں گے، مذہبی ٹچ دے کر یوم حساب تک تمہیں بے فکری کی نیند سلا دیں گے۔ آجائو نوگ میاں ہمارے یہاں گہری نیند سلانے کا بہترین بندوبست ہے۔