کراچی میں دہشت گردی جاری ہے اور ڈاکو راج ختم نہیں ہوسکا ہے۔ گزشتہ دنوں ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر پولیس ہائی الرٹ بھائی جاری کیا گیا تھا۔ لیکن نتیجہ صفر ہے اور روزانہ کی بنیاد پر لوگ لٹیروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں اور اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی تسلسل سے جاری ہیں جس کا ایک ثبوت جماعت اسلامی کے کارکن کی اورنگی ٹائون کے علاقے ایک نمبر جامع مسجد مسلمین کے قریب ٹارگٹ کلنگ ہے، جس کی مذمت کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ ’’صرف ایک سال میں کراچی میں 150 سے زائد شہریوں کو اسٹریٹ کرائم میں قتل کیا گیا، قاتل کھلے عام قتل کرتے ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوتا‘‘۔ کراچی میں جرائم کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق سال 2023ء کے دوران شہری 27 ہزار 500 سے زائد قیمتی موبائل فون سے محروم ہوگئے۔ اعداد و شمارکو اگر دیکھا جائے تو ڈاکوئوں اور لٹیروں کو اتنی آزادی ہے کہ شہر میں ہر گھنٹے 3 اور ہر 18 منٹ میں ایک موبائل فون اسلحے کے زور پر چھینا گیا، رواں سال شہریوں سے اربوں روپے مالیت کی 58 ہزار500 سے زائد موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں، جبکہ موٹرسائیکل لفٹنگ کی یومیہ تعداد 162 سے تجاوز کر گئی۔ اس طرح شہر میں ہر گھنٹے میں 6 موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں یا چھینی گئیں۔ رواں سال صرف گاڑیاں چھینے جانے کی 261 وارداتیں ہوئیں جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد 161 تھی۔ اس طرح گاڑیاں چھینے جانے کی وارداتوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 62 فی صد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ ہی شہر میں ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان اور قتل جیسے واقعات ہورہے ہیں۔ ڈاکو کھلے عام لوگوں پر حملے کررہے ہیں اور حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی۔ گڈاپ ٹائون تھانے کی حدود کا واقعہ ہے کہ ملزمان نے پولٹری فارم کے مالک اور ڈرائیور کو خود کو سی ٹی ڈی اہلکار ظاہر کرکے اغوا کیا اور تاجر کے اہل ِ خانہ سے ایک کروڑ روپے تاوان مانگا، تاوان ادا نہ کرنے پر ملزمان نے تاجر کا کان کاٹ کر ویڈیو اہل ِ خانہ کو بھیجی، جس کے بعد تفتیشی حکام کے مطابق تاوان ادا کرنے پر ملزمان تاجر کو حیدرآباد کے قریب چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ اب عوام دہشت گردی اور ڈاکو راج سے تنگ آکر ازخود اپنی عدالت لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز کورنگی 6 نمبر سیکٹر 51 سی، عبدالرزاق شاہ مزار کے قریب عوام نے لوٹ مار کرنے والے 2 ڈاکوئوں کو فائرنگ کا نشانہ بناکر شدید زخمی کردیا تھا۔ اب شہر میں اس طرح کے بے لگام ڈاکوئوں کے خلاف لوگوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہے اور ردعمل بھی سامنے آرہا ہے۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ دسمبر کے آخری عشرے میں لوگوں نے سڑکوں پر اپنی عدالت لگا کر 4 روز میں 7 ڈاکوئوں کو ہلاک کردیا تھا جس کی تفصیلات یہ ہیں کہ 3 ڈاکو اورنگی ٹائون، 2 ڈاکو سرجانی ٹائون، ایک ڈاکو کورنگی اور ایک ڈاکو مومن آباد کے علاقے میں مارا گیا تھا جس سے عوام کے غصے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے بلکہ لاقانونیت کا مظہر ہے، لیکن کیونکہ ریاست ناکام ہوچکی ہے اس لیے لوگ اپنی جان کی پروا کیے بغیر لٹیروں اور ڈاکوئوں سے نمٹ رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست اور ریاستی اداروں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک کراچی کو نظرانداز کرتے رہیں گے؟ کیا شہری ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر رہیںگے اور شہر میں دہشت کا راج رہے گا؟