صوبہ سندھ کی آبادی کا 72 فی صد حصہ ایک وقت کے کھانے کے لیے بھی پریشان رہتا ہے۔ یہ کسی عام ادارے کی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے محکمہ خوراک کی سال گزشتہ کی ایک رپورٹ میں مذکور ہوا ہے۔ یہ کہنا بڑا المیہ ہے کہ وسائل سے مالا مال صوبہ سندھ کی آبادی کا اتنا بڑا حصہ محض بد حکومتی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ سندھ میں ہر سال اربوں روپے کا تیل، گیس، کوئلہ، قیمتی پتھر، مچھلی، زرعی اجناس پیدا ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود وطن عزیز کے دوسرے بڑے صوبہ کے عوام کی بیش تر آبادی کے حصے کا محض ایک وقت کھانا اور دو وقت اس سے محروم رہنا ہے، جو بڑے دُکھ اور بے حد افسوس کی بات ہے۔ سندھ میں کوئلے کے ذخائر اتنے زیادہ اور وسیع پیمانے پر موجود ہیں کہ ان سے لگ بھگ روزانہ 650 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس کا واضح طور پر یہ مطلب ہے کہ یہ ذخائر عمدہ اور معیاری ہیں جو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ 650 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کو منتقل کردی جاتی ہے جو سارے ملک کے زیر استعمال آتی ہے لیکن تھر جہاں پر کوئلے کے ذخائر ہیں اس کی حالت زار کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر سال تھر میں درجنوں بچے اور ان کی مائیں قلت غذا، کمزور ترین قوت مدافعت اور بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ پی پی پی کے 16 سالہ دور اقتدار میں ہر سال ہی اس حوالے سے خبریں سامنے آکر اہل دل کو رلاتی اور تڑپاتی رہی ہیں، لیکن مجال ہے کہ کبھی پی پی پی کی صوبائی حکومت کے ذمے داران کے کارکنوں پر کبھی کوئی جوں بھی رینگی ہو، البتہ جماعت اسلامی اور الخدمت کے زیر اہتمام اہل تھرپارکر کے دُکھوں کا مداوا کرنے کے لیے بہت زیادہ کام کیا گیا ہے۔
سابق ناظم کراچی جناب نعمت اللہ خان مرحوم نے تھرپارکر میں مقامی عوام کو صاف اور میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے درجنوں کنوئیں کھدوائے تھے اور ان گنت ہینڈ پمپس اور واٹر فلٹر پلانٹ بھی نصب کروائے تھے۔ یہی نہیں بلکہ کروڑوں روپے کے زرکثر سے اہل تھرپارکر کو مفت جدید علاج اور ادویات کی سہولت بہم پہنچانے کے لیے وہاں پر ایک بہت بڑا معیاری اسپتال بھی تعمیر اور قائم کیا جاچکا ہے۔ جس میں ہر بیماری کی تشخیص اور علاج مفت میں ہوتا ہے۔ تھرپارکر میں جہاں صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں الخدمت نعمت اللہ اسپتال بلاشبہ اہل تھرپارکر کے لیے کسی نعمت عظمیٰ سے کم ہرگز نہیں ہے۔ اس اسپتال میں تاحال ہزاروں افراد کی مفت آنکھوں کی سرجری ہوچکی ہے۔ واضح رہے کہ 22 ہزار کلو میٹر صحرائے تھر کی آبادی کی اکثریت حد درجہ غریب اور بدحال ہے۔ اس اسپتال میں ہر روز مختلف بیماریوں میں مبتلا سیکڑوں مرد و خواتین اور بچوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہاں پہلی مرتبہ فری نیورو سرجری کیمپ کا انعقاد بھی کیا جاچکا ہے۔ جس میں 200 سے زائد مریضوں کی او پی ڈی اور 20 سے زائد نیوروسرجریز بھی کی گئیں۔ جو بلاشبہ جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن کا ایک ایسا یادگار اور ناقابل فراموش کارنامہ ہے جو پی پی پی کی موجودہ قیادت اور سابق حکومت جو اسی پارٹی ہی کی تھی کے لیے ایک روشن مثال ہے، جو باوجود تمام تر وسائل ہونے کے اہل تھرپارکر کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکی اور عرصہ 16 برس تک صرف لوٹ مار کرنے میں ہی تندہی سے مصروف رہی ہے۔
سندھ میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں دکھائی دیتا ہے۔ عوام کو اس حوالے سے بھی پی پی پی کی حکومت نے اپنے سارے دور اقتدار میں کوئی سہولت مہیا نہیں کی، اُلٹا جیکب آباد شہر کو صاف اور میٹھے پانی کی فراہمی کی ایک عمدہ اسکیم جو سابق ناظم ضلع جیکب آباد بیگم سعیدہ سومرو مرحومہ (والدہ ماجدہ سابق ایم این اے اور سابق چیئرمین سینیٹ، سابق نگراں وزیراعظم محمد میاں سومرو) نے اپنے دور نظامت میں اربوں روپے کے اخراجات کے بعد بطور تحفہ دی تھی اس کا بھی پی پی پی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے ستیاناس کرکے اسے ناکام بنادیا اور اہل جیکب آباد اس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پیسوں کے عوض پانی ٹینکرز یا گدھا گاڑی والوں سے خریدنے پر مجبور کردیے گئے۔ پی پی پی کی سابق حکومت کے ذمے داران نے کسی بھی شعبے میں صوبہ اور اہل صوبہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کبھی کوئی بھی عار محسوس نہیں کی ہے۔ پی پی کی سندھ حکومت نے مختلف شہروں میں آر او پلانٹ کی تنصیب کی ایک اسکیم شروع کی تھی اور اس منصوبے میں بھی متعلقہ ذمے داران نے بہت بڑے پیمانے پر حسب روایت خوب خوب ہی کرپشن کی۔ ان علاقوں میں جہاں کروڑوں بلکہ اربوں روپے مالیت کے حامل آر او پلانٹ نصب کیے گئے تھے ان میں تھرپارکر بھی شامل تھا۔ گزشتہ دنوں نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے جب تھرپارکر کا دورہ کیا تو ان پر منکشف ہوا کہ یہاں پر نصب 834 میں سے 555 آر او پلانٹ غیر فعال ہو چکے ہیں اور ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو بالکل ناکارہ بن چکی ہے۔ آر او پلانٹ کے آپریٹرز کو تنخواہیں ملنا بھی بند ہو چکی ہیں۔ واضح رہے کہ مزکورہ آر او پلانٹ کی اسکیم پر پی پی پی کی سابق حکومت نے 22 ارب روپے خرچ کیے تھے، جسے بڑے بدنما اور مکروہ انداز میں بدعنوانی کی نذر کردیا گیا ہے۔ اس امر پر نگراں وزیراعلیٰ سندھ جہاں بے حد حیران ہوئے وہیں انہوں نے اپنے سخت غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے آر او پلانٹ لگانے والی کمپنی کے خلاف تحقیقات کرنے اور بدعنوانی کرنے والے افسران سے فنڈز کی وصولی کا حکم بھی دیا۔ وزیراعلیٰ نے نجی کمپنی کی جانب سے تھرپارکر، مٹھی، اسلام کوٹ اور ننگرپارکر میں لگائے گئے اربوں روپے کے اخراجات کے حامل آر او پلانٹ کے ناکارہ ہونے پر اپنی گہری تشویش کا بھی اظہار کیا۔
دوسری جانب جب اس حوالے سے ایک صحافی نے پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری سے نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے مذکورہ دورے کے تناظر میں جب یہ سوال کیا کہ آپ
کے دور حکومت میں لگائے گئے 22 ارب روپے مالیت کے آر او پلانٹس خراب اور ناکارہ ہوچکے ہیں تو موصوف نے اس بارے میں تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ جواب دیا کہ آپ مجھ سے سوال ہی پوچھیں، اپنی سیاسی رائے مت دیں۔ تھرپارکر میں سابق پی پی حکومت نے چند خواتین سے ڈمپر چلوا کر اس طرح کا مصنوعی تاثر دیا کہ گویا تھرپارکر کی قسمت کا ستارہ بام عروج پر پہنچ چکا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تھرپارکر ہو یا صوبہ سندھ، اس کے عوام کی تقدیر میں تبدیلی صرف اور صرف ایک خوف خدا کی حامل دیانتدار قیادت ہی برپا کرسکتی ہے۔ اوپر ہم نے ہر دوا مثال سے بخوبی واضح کردیا ہے کہ کس طرح سے جماعت اسلامی نے باوجود محدود وسائل اور حکومت میں نہ ہونے کے اہل تھرپارکر کی زندگی میں حقیقی اور مثبت تبدیلی کے عملی اور ٹھوس اقدامات کیے، جبکہ پی پی پی کی سابق حکومت نے کس انداز سے آر او پلانٹ کی اسکیم جو اربوں روپے مالیت کی حامل بھی ہے اس میں کرپشن کی۔ اہل سندھ کے پاس اب کی مرتبہ ایک اچھا موقع آیا۔ اگر وہ 8 فروری کو اپنے لیے دیانتدار نمائندوں کو منتخب کریں گے تو ان شاء اللہ سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔