پاکستان یا لاپتانستان؟

999

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں کوئی شخص لاپتا نہیں ہے اور یہ کہ اسلام آباد کی طرف بلوچوں کا مارچ دہشت گردوں کی سہولت کاری کے لیے تھا۔ کوئٹہ میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جان اچکزئی نے کہا کہ تربت سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے اسلام آباد کی طرف مارچ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مارچ کے شرکا جن لاپتا افراد کے نام لے رہے ہیں ان کا تعلق بلوچستان لبریشن آرمی سے ہے۔ یہ لوگ کالعدم تنظیموں کے کیمپوں یا بھارت سے تربیت لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نسلی تعصب کی بنیاد پر لوگوں کو مارا جارہا ہے (روزنامہ جسارت کراچی، 25 دسمبر 2023)
جان اچکزئی کا یہ بیان جھوٹ کا پلندہ ہے۔ بلوچستان سے دوچار نہیں سیکڑوں افراد لاپتا ہیں۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے پانچ سال پہلے ہمیں بتایا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق بلوچستان سے 300 خواتین لاپتا ہیں۔ لیکن جان اچکزئی کا اصرار ہے کہ بلوچستان سے کوئی شخص لاپتا نہیں ہے۔ یہ دعویٰ اس لیے بھی جھوٹا ہے کہ لاپتا افراد کا مسئلہ عدالت عظمیٰ تک پہنچ چکا ہے اور عدالت عظمیٰ تسلیم کرچکی ہے کہ بلوچستان کے متعدد لوگ لاپتا ہیں۔ ممکن ہے کہ بلوچستان کے لاپتا افراد میں بھارت کے لیے کام کرنے والے لوگ موجود ہوں۔ اگر ایسا ہے تو ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت عدالت عظمیٰ میں کیوں پیش نہیں کرتی۔ اسٹیبلشمنٹ عدالت عظمیٰ میں ناقابل تردید شواہد پیش کرے گی تو پوری قوم مانے گی کہ بلوچستان کے لاپتا افراد واقعتاً بھارت کے لیے کام کررہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک ہمارے خفیہ اداروں نے لاپتا افراد کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ جس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے ہی نہیں۔ دیکھا جائے تو لاپتا افراد کا مسئلہ کئی اعتبار سے المناک ہے۔ زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ انسانوں کے لیے اپنے پیاروں کی موت تلخ ترین تجربہ ہوتی ہے لیکن بہرحال انسان مرنے والوں پر بھی کچھ دن رو پیٹ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اُسے صبر آجاتا ہے مگر لاپتا افراد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ زندوں میں شامل ہیں نہ مردوں میں۔ چناں چہ ان کے ہزاروں لواحقین دنیا ہی میں جہنم کے تجربے سے گزر رہے ہیں۔ وہ نہ یہ جانتے ہیں کہ لاپتا افراد مر گئے، نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ لاپتا افراد زندہ ہیں۔ عدالت عظمیٰ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے مگر وہ بھی اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے کہ قوم کی طرح عدالت عظمیٰ بھی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جان اچکزئی نے جو کچھ کہا ہے وہ بکواس کے سوا کچھ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کی ہر قیمتی چیز کو لاپتا کیا ہوا ہے۔
پاکستان خلا میں وجود میں نہیں آیا تھا اسے ایک نظریے نے خلق کیا تھا۔ یہ نظریہ اسلام تھا مگر پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان میں اسلام کو ریاستی نظام سے لاپتا کیا ہوا ہے۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ایک سوشلسٹ معاشرے سے سوشلزم کو غائب کیا جاسکتا ہے یا ایک سیکولر معاشرے میں سیکولر ازم کو لاپتا بنایا جاسکتا ہے مگر جنرل ایوب نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں سرعام سیکولر ازم کو غالب کرنے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذریعے سود کو عین اسلام قرار دلانے کی سازش کی۔ انہوں نے وہ عائلی قوانین اسلامی معاشرے پر مسلط کیے جو اسلام کی ضد تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی ’’پروڈکٹ‘‘ تھے۔ وہ جنرل ایوب سے اتنی محبت کرتے تھے کہ انہیں ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ملک کو سیکولر اور لبرل بنانے کی کوشش کی۔ ان کے دور میں پی ٹی وی پر اتنی عریانی اور فحاشی تھی کہ کسی اسلامی ملک میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بھٹو صاحب نے ایک جلسے میں سرعام کہا کہ شراب پیتا ہوں کسی کا خون نہیں پیتا۔ حالانکہ یہ بات بھی جھوٹ تھی کیونکہ بھٹو پر کئی لوگوں کو مروانے کا الزام تھا۔ جنرل پرویز مشرف سیکولر اور لبرل تھے اور انہوں نے ملک کو سیکولر اور لبرل بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے لاپتا ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ملک کا آئین اسلامی ہے لیکن حکمرانوں نے ملک کے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنایا ہوا ہے۔ وہ اسلام کو آئین سے نکل کر موثر ہونے ہی نہیں دیتے۔ پاکستان کی سیاست کو دیکھیے اس میں کہیں اسلام موجود نہیں۔ پاکستان کی معیشت کو دیکھیے اس میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام سے بھی اسلام غائب ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں بھی اسلام صرف اسلامیات کی تدریس تک موجود ہے۔ ورنہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ایسے درجنوں مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو سیکولر اور لبرل تناظر کے حامل ہیں۔
غور سے دیکھا جائے تو آزاد پاکستان سے ’’آزادی‘‘ لاپتا ہے۔ ملک کو آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے مگر ہماری سیاست پر جاگیرداروں اور وڈیروں کا قبضہ ہے۔ یہ جاگیردار اور وڈیرے قوم کی سیاسی آزادی کو لاپتا کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ 60 سال میں ’’الیکٹیبلز‘‘ کی ایک فوج ظفر موج خلق کی ہے۔ یہ الیکٹیبلز سیاست کے بادشاہ گر ہیں۔ یہ الیکٹیبلز میاں نواز شریف کو دے دیے جاتے ہیں تو وہ وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ یہ الیکٹیبلز عمران خان کے حوالے کردیے جاتے ہیں تو وہ وزیراعظم قرار پاتے ہیں۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور الیکٹیبلز سے اوپر نظر جاتی ہے تو وہاں فوجی اسٹیبلشمنٹ موجود ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی اور صحافتی آزادی کو 1958ء سے لاپتا کیا ہوا ہے۔ چنانچہ پاکستان کا سیاسی نظام ایک دھوکا ہے۔ ایک فریب ہے۔ پاکستان کی جمہوریت ایک فراڈ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے تو نواز شریف مقتدرِ اعلیٰ بن جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ہوتی ہے تو عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے اوپر دیکھا جائے تو وہاں امریکا موجود ہے اور امریکا نے بھی ہماری آزادی کو لاپتا کیا ہوا ہے۔ امریکا چاہتا ہے تو ملک میں مارشل لا آجاتا ہے۔ امریکا کو خواہش ہوتی ہے تو ملک میں جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ امریکا نے صرف ہماری سیاسی آزادی ہی کو لاپتا نہیں کیا ہوا اس نے ہماری معاشی آزادی کو بھی لاپتا کیا ہوا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے اب بجٹ بھی نہیں بنا سکتے۔ آئی ایم ایف ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کتنے ٹیکس لگائیں اور کن کن دائروں میں زرتلافی دینا بند کریں۔
بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے جرنیلوں نے ایک دن اچانک آدھا پاکستان ہی لاپتا کردیا۔ 15 دسمبر 1971ء تک دنیا میں قائداعظم کا تخلیق کیا ہوا پاکستان موجود تھا مگر 16 دسمبر 1971ء کا سورج طلوع ہوا تو قائداعظم کا آدھا پاکستان تاریخ کے صفحات سے لاپتا ہو کر بنگلادیش کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ آدھے پاکستان کے لاپتا ہونے کی کہانی درد ناک ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے 1947ء سے 1960ء تک ملک کی آبادی کی غالب اکثریت یعنی بنگالیوں کو فوج میں آنے ہی نہ دیا۔ 1960ء کے بعد بنگالی فوج میں آئے تو ان کی تعداد صرف آٹھ دس فی صد تھی حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ بیوروکریسی میں بنگالیوں کی موجودگی چار سے چھے فی صد تھی حالانکہ بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے۔ 1970ء میں انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اس صورت حال کا تقاضا تھا کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کیا جاتا مگر جنرل یحییٰ نے ایسا کرنے کے بجائے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ حالات خراب ہوئے تو بھارت کو مداخلت کا موقع مل گیا۔ مگر جنرل نیازی نے کہا کہ بھارت ان کی لاش سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکتا ہے۔ سقوط ڈھاکا سے چند روز پہلے جنرل یحییٰ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے مگر 16 دسمبر 1971ء کا دن آیا تو بھارت کی فوجیں ڈھاکے میں داخل ہورہی تھیں اور جنرل نیازی 93 ہزار فوجیوں کے ساتھ بھارت کے آگے ہتھیار ڈال کر آدھے پاکستان کو لاپتا کررہے تھے۔
بدقسمتی سے اس بچے کھچے پاکستان کی حالت بھی خراب ہے۔ ملک کی 40 فی صد آبادی کے لیے تعلیم لاپتا ہے۔ ملک کی 70 فی صد آبادی کے لیے صاف پانی لاپتا ہے۔
ملک کی 70 فی صد آبادی بیمار پڑتی ہے تو اُسے دیکھنے کے لیے کوئی ماہر ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا یعنی 70 فی صد لوگوں کے لیے علاج کی سہولتیں لاپتا ہیں۔ پورا پاکستان اگر 100 روپے کماتا ہے تو کراچی پاکستان کو 70 روپے کردیتا۔ مگر اس کے باوجود آدھا کراچی پانی سے محروم ہے۔ پورے کراچی کو ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولت فراہم نہیں حد تو یہ ہے کہ کراچی کا کچرا تک نہیں اٹھایا جاتا۔ یعنی کراچی میں پانی، ٹرانسپورٹ اور کچرا اٹھانے کی سہولتیں لاپتا ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کو ہر اعتبار سے لاپتانستان بنادیا ہے۔