آہ مبارک اجن

958

میری زندگی میں ’’مبارک‘‘ نام بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جب میں پرائمری میں تھا تو میرے اسکول کے اساتذہ میں ایک استاد ’’مبارک‘‘ نام کے بھی ہوا کرتے تھے۔ میرے زمانے میں جو بھی استاد جس کلاس کا ’’کلاس ٹیچر‘‘ ہوا کرتا تھا وہ ہی سارے مضامین پڑھایا کرتا تھا۔ گوکہ میرے کلاس ٹیچر منظور صاحب ہوا کرتے تھے لیکن دیگر بہت ساری سرگرمیوں میں مختلف ٹیچرز ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے۔ اسی قسم کے ادبی پروگراموں میں ’’مبارک‘‘ صاحب سے کافی قربت ہوگئی تھی یا یہ سمجھ لیں میں ان کی گڈ بک میں ٹاپ ٹین میں شامل تھا۔ میرے زمانے میں اقبال، جوش، حفیظ جالندھری جیسے شعرا بہت پڑھے اور سنے جاتے تھے۔ یہ بھی عجب اتفاق تھا کہ دوسرے شعرا کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر میں پڑھے جانے والے شعرا میں یہ تین شعرا بہت زیادہ پڑھے جاتے تھے۔ پانچویں جماعت میں ہونے کے باوجود مجھے اقبال اور جوش کی کافی نظمیں یاد تھیں۔ حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام میں سے تو بہت ہی زیادہ اشعار یاد تھے۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ مبارک صاحب کو ان ہی تین شعرا سے بہت لگاؤ تھا۔ اگر سچ کہوں تو اس زمانے میں ہر وہ فرد جو پڑھا لکھا اور تحریک ِ پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی حیثیت میں شامل تھا، وہ ان تین شعرا سے لازماً متاثر تھا۔ اقبال کی مثبت شاعری، جوش کی کئی انقلابی نظمیں اور حفیظ جالندھری کی منظوم اسلامی تاریخ اس کی وجوہات تھیں۔ جب ان کے علم میں یہ بات آئی کہ پانچویں کلاس کے ایک بچے کو ان تینوں شعرا کے بہت سارے اشعار اور نظمیں یاد ہیں تو انہیں حیرت اور خوشی ہوئی۔ ان ہی کی حوصلہ افزائی تھی کہ میں اسکول میں نمایاں حیثیت اختیار کرتا چلا گیا جس کا میں آج تک ان کا ممنون ہوں۔
زندگی کے بہت سارے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے جب میں عملی زندگی میں داخل ہوا تو وہاں بھی میری ملاقات ’’مبارک‘‘ سے ہوئی۔ یہ نوجوان ’’مبارک اجن‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ سندھ کے دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان سے میری پہلی ملاقات او جی ڈی سی ایل کی گیس فیلڈ ’’اوچ‘‘ میں ہوئی۔ اس نوجوان کا نام میں نے پہلی بار اپنے پارٹی چیف ’’مسیح احمد قادری‘‘ سے سنا تھا۔ مسیح احمد قادری صاحب مجھے میری بہت ساری کمزوریوں کا احساس دلایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر کچھ بننا اور سیکھنا ہے تو مبارک اجن سے سیکھو۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ’’اوچ‘‘ گیس فیلڈ سے کافی عرصہ قبل سیسمک پارٹی 7 میں ہوا کرتا تھا۔ پارٹی چیف کا بار بار مبارک اجن کا حوالہ دینے کی وجہ سے مجھے بہت اشتیاق تھا کہ میں کبھی ان سے ملاقات کروں لیکن کبھی ایسا موقع ہاتھ نہیں آتا تھا کہ ملاقات کی کوئی سبیل نکل سکے۔ کسی بھی انسان کے دل میں اگر اخلاص کے ساتھ کسی سے ملنے کی خواہش سر ابھار نے لگے تو اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کو پورا کر دیا کرتا ہے۔ چنانچہ اوچ گیس پلانٹ کی سپلائی کے سلسلے میں کئی ٹرکوں کے قافلے کے ساتھ مبارک اجن آئے اور یوں ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔
مبارک اجن نے جب او جی ڈی سی جوائن کی تھی تو ایک ہیلپر کی حیثیت سے جوائن کی تھی۔ اس وقت خود ان کی تعلیمی قابلیت بھی کم تھی۔ وہ اپنی اس حیثیت میں بھی خوش تھے۔ او جی ڈی سی جوائن کرنے کے بعد انہوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور اس سلسلے کو دورانِ ملازمت جاری رکھتے چلے گئے۔ جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت وہ انتھک محنت کرتے کرتے ایک ہیلپر سے ترقی کرتے کرتے سپروائزری پوسٹ تک پہنچ چکے تھے اور یہی وجہ تھی کہ مسیح احمد قادری مجھے ان کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ یہی وہ شخصیت تھی جس کے قدم ایک دن لے لیے بھی نہ تو رکے اور نہ ہی واپسی کی سمت مڑے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ بقول فیض احمد فیض
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اپنے فرائض ِ منصبی نہایت تندھی سے انجام دیتے رہے، محنت اور لگن سے کام کرتے رہے، تعلیم کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا، گریجویشن کیا، ماسٹر ڈگری حاصل کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک وہ شخص جس نے ایک آرگنائزیشن کو ایک ہیلپر کی حیثیت میں جوائن کیا تھا، پہلے اس کی آفیسر رینج میں پہنچے، سینئر آفیسر بنے، ڈپٹی چیف بنے، چیف بنے اور پھر اپنے ہی ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ ترین عہدے یعنی منیجر کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
زندگی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ موقع بھی فراہم کیا میں نے ان کی آفیسری میں چند ماہ بھی گزارے۔ میں اور وہ ایک ہی گاڑی میں آفس جایا کرتے تھے۔ ایک وہ دور تھا جب میں ان سے بہت سینئر ہوا کرتا تھا یا پھر یہ وقت بھی آیا کہ میں ان سے بہت جونیئر ہو گیا لیکن مجال ہے کہ انہوں نے میری عزت کرنے میں کوئی کمی کی ہو۔ میں اپنے مزاج کی وجہ سے جس جس مقام پر بھی پوسٹ رہا، کبھی اپنے سینئر کی گڈ بک میں نہیں رہا اور یہی وہ بات تھی جس کی نشاندہی مسیح احمد قاری کیا کرتے تھے۔ ان کا ایک جملہ آج تک مجھے یاد ہے کہ حبیب تم دودھ تو بہت دیتے ہو لیکن اس میں مینگنیاں ڈال دیتے ہو۔ اس کے باوجود کہ میں اپنے مزاج میں مزید پختہ بھی ہو چکا تھا لیکن مبارک اجن نے میری عزت میں کوئی کمی نہیں کی اور میرے آخری پروموشن میں اگر کسی کا بہت واضح کردار رہا تھا تو وہ مبارک اجن ہی کا کردار تھا۔ اب وہ کئی برس پہلے ہم سب سے رخصت ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ چکے ہیں لیکن کوئی مانے یا نہ مانے، ایک مجسم شکل میں ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔