فروری 2024 میں الیکشن ہوں گے یا نہیں، اس پر تو شک ہوسکتا ہے لیکن نامزدگیوں کے مرحلے میں جو اقدامات کروائے جا رہے ہیں ان کو دیکھ کر ’’نابینا حافظ‘‘ بھی ان کی شفافیت پر کوئی شبہ نہیں کر سکتا۔ یقین ہے کہ اتنی شفافیت کا تو نوازی ہوئی (ن) لیگ کو بھی یقین نہیں ہوگا! درج ذیل خبریں عین الیقین پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ پڑھیے اور عوام کی قسمت اور جمہوریت کی فتح پر سر دھنیے!
نواز شریف کے این اے 130 سے کاغذات نامزدگی منظور این اے 242 کراچی: شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی درست قرار، لاڑکانہ کے دو حلقوں سے بلاول زرداری کے کاغذات نامزدگی منظور، شاہ محمود کے کاغذات نامزدگی 4 حلقوں سے مسترد، بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے لاہور اور میانوالی کے حلقوں سے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ این اے 263 سے قاسم سوری کے کاغذات نامزدگی مسترد۔ ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد۔
انتخابات 2024ء: عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اور کئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی رہنما اعظم خان سواتی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 15 مانسہرہ سے جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔ ان کے علاوہ ذولفی بخاری کے بھی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 50 اٹک سے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں این اے 119 لاہور: مریم نواز کے کاغذات منظور، صنم جاوید کے مسترد! قومی اسمبلی کے حلقے این اے 127 لاہور سے بلاول زرداری کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے، جبکہ پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری کے مسترد کردیے گئے۔ این اے 56 راولپنڈی سے شیخ رشید کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے، جبکہ حنیف عباسی اور دانیال چودھری کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے۔ پنجاب اسمبلی کی صوبائی نشست پی پی 32 گجرات سے پرویز الٰہی، قیصرہ الٰہی، مونس الٰہی، سمیرا الٰہی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔ نادہندہ ہونے، مفرور ہونے اور شناختی کارڈ بلاک ہونے پر رہنما پی ٹی آئی قاسم سوری کے کاغذات نامزدگی حلقہ این اے 263 سے مسترد کردیے گئے، یو اے ای کا اقامہ رکھنے پر سردار اختر مینگل کے این اے 264 کوئٹہ پر کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ رہنما ن لیگ ایاز صادق کے این اے 117 سے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے، جبکہ این اے 149 ملتان سے جہانگیر ترین کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے، پی ٹی آئی کے عاطف خان کے کاغذات نامزدگی پی کے 59 سے مسترد ہوگئے۔
سچ یہ ہے کہ اتنی ننگی شفافیت دیکھ کر 1977 کے بھٹو حکومت کے الیکشن کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اے جمہوریت پسند اہل وطن! اب تو الیکشن کمیشن کی ’’غیر‘‘ جانب داری اور الیکشن کے شفاف ہونے پر ایمان لے آو! ’’جمہوریت کے رکھوالے‘‘ اپنے پیاروں کو کبھی ’’نواز‘‘ کر کبھی ’’نیاز‘‘ کر آزماتے رہتے ہیں۔ آزمائش میں فیل ہونے والوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہنے دیا جاتا!
’’تدفین کا اعلان‘‘
خبر ہے کہ ’’زندہ بھٹو‘‘ کی نسل کے تیسرے وارث چیئرمین ’’زرداری بھٹو‘‘ نے پی پی کا ایک اور منشور پیش کیا، عوام کی تین نسلوں کی غربت کا رونا رویا اور کہا کہ ہم ان میں سے نہیں کہ مخالفین کے کاغذات نامزدگی چھینیں (سیدھا اغوا کرتے ہیں) ہم نے قائدین کو دفن کرنے کے بعد بھی الیکشن میں مقابلہ کیا، سیاسی جماعتوں کو پیغام ہے کہ الیکشن لڑو، پہلے یہ کسی اور کے کندھوں پر سیاست کرتے تھے، آج بھی کچھ لوگ کسی اور کے کندھوں پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان میں سے نہیں کہ الیکشن سے بھاگیں، پرانی سیاست کو دفن کرنے کے لیے الیکشن میں جائیں گے۔ پرانی سیاست کی تدفین کا اعلان ہمارے بوسیدہ سیاسی ڈھانچے کے ایک موروثی نمائندے نے کیا ہے۔
ستر سال سے غربت، بے روزگاری اور لاچارگی کی دلدل میں پھنسے مفلوک الحال عوام کے ملک پاکستان اور صوبہ سندھ پر بلاشرکت غیر، طویل ترین حکمرانی کرنے والی پارٹی کے نوجوان چیئرمین سے عوام پوچھتے ہیں کہ پرانی سیاست کے کس مردے کو دفنانے کا اعلان فرمایا ہے۔ پرانی سیاست کا سب سے مکروہ اور بدبو دار مردہ تو موروثیت ہے۔ اگر تم نے موروثیت کے مردے کو دفنانے کا ارادہ کیا ہے تو سوچ لو کہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے سوا سب پارٹیوں کی اجتماعی تدفین کرنی پڑے گی۔ تمہارا اپنا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ تمہارے منہ میں گھی شکر، آگر تم نے مووثیت کے مردے کو دفنا دیا تو جمہوریت، قوم، معیشت اور ملک کی تو قسمت بدل جائے گی مگر موروثیت کے دودھ پر جیتے سیاستدانوں کا کیا بنے گا۔ نواز شریف، زرداری خاندانوں اور فضل الرحمن اور ان کی اولاد، بھائیوں، سمدھی اور دیگر نیک دل رشتہ داروں کا کیا بنے گا۔ ان سب کا تو سچ میں سیاسی جنازہ ہی نکل جائے گا۔ اگر اس سے مراد سیاسی پارٹیوں کے موروثی لیڈروں کی شاہانہ مزاجی کا مردہ ہے تو پھر اس مردے کو دفنانے کے بعد تمہیں پانی کی بوتل کا ڈھکن کھول کر دینے والے ذہنی غلام کہاں سے ملیں گے۔ اگر تم انتقامی سیاست کو دفنانے کی بات کر رہے ہو تو وہ تم حال ہی میں کرچکے ہو جب تم نے پی ٹی آئی کے خلاف بھان متی کا کنبہ بن کر سولہ ماہ تک سولہ پارٹیوں کے انتقامی مزاج کو ’’مینیجرز‘‘ کی نگرانی میں امانتاً دفنائے رکھا تھا۔
پرانی سیاست سے مراد اگر پرانے وعدے ہیں تو تمہیں نہ منشور پر ووٹ ملتے ہیں اور نہ خدمت اور کارکردگی پر! تمہیں کچھ ووٹ بھٹوکے نام پر، کچھ بے نظیر کے نام پر اور (قوی گمان ہے کہ) کچھ وڈیرہ شاہی کے ذریعے اور باقی ’’دیگر ذرائع‘‘ سے۔ اگر تمہارا اعلان ’’بھٹو زندہ ہے، بی بی زندہ ہے‘‘ کے نعرے کو دفنانے کے لیے ہے تو یقین رکھو اب یہ نعرے تقریباً دفن ہوچکے ہیں۔ اب ان کا غائبانہ جنازہ پڑھ لو تو بہتر ہے! باقی رہا تمہارا تازہ منشور کا پلندہ، تو ’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ کے مصداق نہ کسی کو اس منشور پر عمل کی توقع ہے اور نہ یہ کسی کے لیے اہم! ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ والے پہلے اور سابقہ تمام منشوروں کی طرح یہ بھی پہلے دن سے ہی ردی کی ٹوکری میں براجمان کاغذ کا ایک بے کار ٹکڑا ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے عوام تو کجا شاید پی پی کے قومی و صوبائی کے امیدواروں کو بھی اس منشور کے نکات یاد نہیں ہوں گے۔ جب تک عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو اور وہ ہوش میں آکر تمہاری موروثی سیاست کو دفن نہیں کرتے، تم اسی طرح کے خوش کن نعرے لگاتے رہو!