سال نو: رنگ، روشنی، امید اور جگنو

579

ہر مرتبہ کی طرح امسال بھی سال نو کی آمد پر دنیا دو طبقوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے ایک طبقے پر وہی قنوطیت، مایوسی، زود رنجی اور اضمحلال چھایا ہوا ہے اور دوسری طرف رجائیت پسندی کے تحت پوری آب و تاب سے سب اچھا ہے، سب اچھا ہوگا کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ ان دونوں طبقات کی کشمکش میں سچ اور جھوٹ کی جنگ نہیں ہے کہ یہ ایک ہی گلاس کے نصف پر ہونے اور نصف خالی ہونے کی داستان ہے جسے

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے

اس شعر کہ بمصداق قرار دیا جا سکتا ہے، بحث کا اصل موضوع یہ ہے کہ قنوطیت پسندی معاشرے کو کئی برس پیچھے کی جانب دھکیل دیا کرتی ہے اور رجائیت پسندی کے ثمرات سے معاشرے نمو پاتے ہیں ایک ہنستے، بستے خوشحال معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ رجائیت پرست بھی ہو اور اسے استحکام و دوام دینے والا ہو۔ قنوطیت، مایوسی، پژمردگی اور اضمحلال زدہ بیمار معاشرہ اصل میں دور جدید یا عرف عام میں دور دجل کے سوشل میڈیاکی سوختہ لاش ہے جسے یہ دجالی میڈیا کسی پھٹے ہوئے ڈھول کی طرح بے ربطگی سے بجاتا چلا جا رہا ہے۔ ریٹنگ کے نام پر مسابقت کی اس دوڑ میں سب سے برا عنصر یہ ہے کہ برائی کی ترویج و اشاعت کی جار ہی ہے کوئی ان سے جا کر پوچھے کہ تم کو گندے جوہڑ سے میلے ہاتھوں کی اوک سے پانی پیتی ہوئی منٹو کے افسانوں کی ’’بانکی‘‘ جو کبھی دیور کے ساتھ تو کبھی محبوب کے دوست کے ساتھ اور کبھی بہن کے شوہر یعنی بہنوئی کے ساتھ ہی کیوں دکھائی دیتی ہے؟

تمہیں سبک اندام، دلنشیں، مہ لقا، نازنیں، زہرہ جبیں مثل حور دل کا سرور، آنکھ کا نور نظر کیوں نہیں آتی کہ جو اپنے گھروں میں اپنے حسن کو آراستہ کرنے والی ہے اور گھر سے باہر حجاب و نقاب میں چھپا اک آتشیں شعلہ ہے جسے چھونا تو درکنار بیباک نگاہ سے دیکھنے والا ہی جل کر خاک ہو جائے یہ قصہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے جو اس میڈیا کو کیوں نظر نہیں آتا یا یہ دیکھنا نہیں چاہتا، یہ سب تو ڈراموں کا حصہ ہے نیوز چینل بھی کسی پھاپھا کٹنی خالہ خیرن سے کم درجے پر نہیں ہیں جنہیں کراچی کا ساحل بھی دکھانا ہے تو وہاں سے دکھائیں گے جہاں سب سے زیادہ کچرا اور کالا سیاہ آلودہ پانی ہے ارے اتنی بڑی ساحلی پٹی پر خوبصورت سفید جھاگ اڑاتی لہریں نظر نہیں آتیں؟

خبر بنائیں گے تو فیل ہونے اور نقل کرنے والے بچوں کی، لگتا ہے اچھا پڑھنے والوں کا جنازہ نکل چکا ہے ستی ساوتری، باوفا و باحیاء عورت سے دنیا خالی ہوچکی ہے اور مرد صرف منا بھائی ایم بی بی ایس، مولا جٹ یا پھر عصمت چغتائی اور منٹو نامہ والے گوشت خور ہی رہ گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس تاریک پہلو دکھاتی ہوئی اسکرین سے نظر ہٹا کر جو دیکھیں تو ہر گھر میں لہسن اور لال مرچ کی چٹنی کھا کر بھی نظر آتی خوشی اور خوشحالی ہے اتوار بازار اور لنڈے بازار سے خرید کر پہنی ہوئی ننھی منی سی خوشی ہے، گھر میں نئی کھلونا گاڑی خرید کر لاتے ہوئے ٹوٹی گھسی ہوئی چپل کے سوراخ سے نظر آتے ہوئے ایک مرد ایک شوہر ایک باپ کے وہ خاک آلود پاؤں اور ننھے سے ہاتھ میں دبے ہوئے بیس روپے والے بسکٹ کے پیکٹ کی چھے بچوں میں برابر تقسیم ہوتی اک خوبصورت سی پارٹی ہے نجانے دجالی میڈیا کو یہ کیوں نظر نہیں آتی؟ حالانکہ یہ جگہ جگہ نظر آتے ہوئے منظر ہیں اور جن مناظر کو میڈیا ہائی لائٹ کر رہا ہے وہ گندے پانی کے جوہڑوں کے کنارے اُگنے والی کائی کی طرح کونے کھدروں میں چھپے ہوئے مناظر ہیں جن کی ترویج و تشریحات کر کے اسے معاشرے کا حصہ بنانے کی کوشش کی جارہی نئے سال کی نئی کونپلیں پھوٹنے والی ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ یہ میڈیا بھی اپنی روش تبدیل کر کے قنوطیت کے بجائے رجائیت کے فروغ کا باعث بنے بقول فیض احمد فیض

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے