ویسے دنیا بھر میں لاڈلے ہیں اور ہر شعبے میں لاڈلے میں ہیں، سیاست تو کیا اب تو ملازمتوں کے لیے میرٹ، تعلیمی اداروں میں امتحانی نظام اور کھیل بھی ان سے محفوظ نہیں رہے، دنیا میں تو دو ہی لاڈلے ہیں، ایک بھارت اور دوسرا اسرائیل، اس لیے یہ دونوں انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں، پاکستان کی سیاست میں لاڈلے کوئی نئے نہیں، یہ تو بانی پاکستان کے دور میں بھی تھے، انہی سے متعلق کہا تھا کہ میری جیب میں کچھ کھوٹے سکے ہیں، یہ کھوٹے سکے ہی لاڈلے ہوتے ہیں، ایوب خان بھی لاڈلے رہے اس لیے تو جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا فیصلہ دیا، جنرل نیازی اور ان کے ساتھی اور انہیں ہتھیار پھینکنے کا حکم دینے والے یہ سب بھی لاڈلے رہے ہیں اس لیے تو انہیں دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے کی سزا نہیں ملی، ان کے بعد بھٹو بھی لاڈلے رہے اس قدر لاڈلے کہ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے، ایسے لاڈلوں کی کہانی کا باب بند نہیں ہوتا، بلکہ یہ اب وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہوگیا ہے، ملازمتوں کا حال دیکھ لیں، 90 فی صد لاڈلے ہی ہیں جنہیں سرکاری ملازمتیں اور اس کے بعد ترقیاں ملی ہوئی ہیں، کراچی میں بھی ایک لاڈلہ تھا اس نے پورا شہر جلا دیا تو اسے لندن جانے کا محفوظ راستہ دے دیا گیا، جب اس لاڈلے نے اپنے خالقوں کی دم کو آگ لگائی تو اسے سبق سکھایا جانے لگا۔
اس ملک میں اگر لاڈلہ نہیں ہے تو وہ ہیں غریب عوام، جن کا کوئی پرسان حال نہیں، دوسرے ہیں سیاسی جماعتوں کے لابیوں کے بغیر رہنے والے مخلص کارکن، سیاسی جماعتوں میں بھی لابیاں ہیں، جس کارکن کی اپنی سیاسی جماعت میں لابی جتنی مضبوط، اسی حساب سے وہ کارکن لاڈلہ ہے، تعلیمی اداروں میں بھی لاڈلے ہیں، اور نجی تعلیمی اداروں کے ایسے مالک، جن کے پاس صرف پیسہ ہے اور عقل نہیں ہے وہ سب ہی کے لاڈلے ہوتے ہیں، یہی وجہ تھی مشرف دور میں ایک گروپ کو ریلوے کے اسکول ہی دے دیے گئے، اور اب پنجاب میں ایک پالیسی لائی جارہی ہے کہ تمام ایسے تعلیمی ادارے جہاں اساتذہ نہیں اور عمارتیں بھی کھنڈر بن رہی ہیں انہیں ایک بڑے لاڈلے تعلیمی گروپ کے حوالے کیا جارہا ہے، اور کھربوں کا کھیل ہے اس کھیل میں ارب تو پیچھے رہ گئے ہیں، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ لاڈلوں سے ہمارے کھیل محفوظ رہ گئے ہیں، کوئی پاگل ہی یہ بات تسلیم نہیں کرسکتا کہ ہمارے کھیلوں کا نظام بھی لاڈلوں کی گرفت میں ہے۔ کرکٹ ٹیم ہی دیکھ لیں، کوئی کھلاڑی کھیلے نہ کھیلے، ٹیم میں ضرور رہے گا، ملک قیوم کی ایک رپورٹ آئی تھی اس پر عمل درآمد کس نے نہیں ہونے دیا؟ ایسے کھلاڑی کس کے منظور نظر اور لاڈلے ہوتے ہیں؟ کھیلوں کو چھوڑیے لاڈلے تو میڈیا کے اداروں میں بھی پائے جاتے ہیں، ان لاڈلوں نے مدیر نہ ہوتے ہوئے بھی مدیر کے اختیارات پر قبضہ کرلیا ہے، کتنے اینکرز لاڈلے ہیں اس کا کسی کو علم ہے؟ یہ تعداد میں بے شمار ہیں اور جہالت میں بھی کوہ ہمالیہ ہیں۔
ان دنوں ہماری سیاست بھی لاڈلوں کی گرفت میں ہے، اب سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ لاڈلوں کی باریاں ہیں، کبھی ایک تو کبھی دوسرا، یہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب کوئی چور سادھو بن جائے اور کب سادھو چور بنا دیا جائے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں کچھ سیاسی جماعتیں اور شخصیات ایسی بھی ہیں جو سراب کے پیچھے بھاگتی ہیں اور بھی چور کو سادھو اور سادھو کو چور بنانے کے کھیل کا حصہ بنتی ہیں مگر ان میں بے شمار بے وقوف ایسے بھی ہیں جن کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا پھر اس کھیل سے باہر نہیں نکل رہے، وہ لاڈوں کے مقبول اور قبول والے کھیل کے پورے پورے ذمے دار اور کسی حد تک خاموش حصہ دار بھی ہیں، یہ کبھی قبول کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور کبھی مقبول کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں، انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے قبول اور مقبول دونوں ایک ہی سکے دو رخ ہیں، پاکستان کے سیاسی نظام میں قائد اعظم کے بعد ایک ایسی شخصیت بھی گزری ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی دیا، عقل بھی دی اور دانش اور ادراک بھی عطا کیا، یہ شخصیت اس قدر معاملہ فہم تھی کہ اور دین کو سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے تفہیم القرآن کا کام لیا، یہ ہمارے محترم سید مودودی تھے، جنہیں عالمی سطح پر قبولیت اور مقبولیت کا درجہ اللہ نے عطاء کیا ہوا تھا، باقی لوگ اپنے گریبان میں خود جھانک لیں، ہمارا سیاسی نظام جب تک قبول اور مقبول کے علاوہ الیکٹ ایبل اور نان الیکٹ ایبل میں جکڑا رہے گا جب تک پسند ناپسند کی بنیاد پر میرٹ سے ہٹ کر قبولیت اور مقبولیت کے تاج پہنائے اور اچھالے جاتے رہیں گے، ملک کیا کوئی سیاسی جماعت بھی پھل پھول نہیں سکتی، میڈیا کا کوئی ادارہ ہو یا کاروباری ادارہ، ترقی اس کے نصیب میں نہیں لکھی جائے گی ہمیں صرف چارٹر آف میرٹ ہی بچا سکتا ہے جن حالات میں لاڈلے بنائے اور ہٹائے جاتے ہیں ان میں میرٹ کا قتل ہوتا رہے گا، باقی صدیقی بھی کچھ اس طرح سے ان حالات کی منظر کشی کرتے ہیں
ہر ایک بات زبان پر نہ آ سکی باقی
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے