بہت نازک ہے شیشہ گری کا یہ کام

512

ملک بھر میں ووٹ اور نوٹ کے درمیان رسہ کشی ہورہی ہے ووٹر حیران و پریشان ہے کہ کیا کرے وہ اس صورت حال میں سوچ رہا ہے کہ کعبہ مرے آگے تو کلیسا مرے پیچھے، امیدواروں کی بیش تر تعداد کلیسائوں کے مربیوں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اور تو اور ملک کی مقتدر عدالتوں میں انتخاب کے حوالے سے اٹکھیلیاں ہورہی ہیں۔ قانون موم کی ناک بنا ہوا ہے، ملک میں سیاسی کش مکش ہے تو عدالتوں میں بھی کھینچا تانی ہے۔ ہوتا ہے شب روز تماشا مرے آگے۔ قوم دیکھ رہی ہے تو ملک بھگت رہا ہے۔ معیشت اور صبر کی نبض ڈوب رہی ہیں قوم اور ملک اس امتحان سے دوچار ہیں کہ کس سے منصفی چاہیں اور کس کو حکمران بنائیں۔ وہ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ پانی کہاں مر رہا ہے، عدل جو مثل صندل ہوا کرتا تھا اس کی خوشبو معاشرے کو معطر کرتی ہے، اب ہائبرڈ بیج کی طرح پیداوار تو خوب دے رہا ہے مگر اس کی خوشبو اور ذائقہ عدل اسلامی سے نہ آشنا ہے۔ 2024ء کے انتخاب عدالتوں کی کھٹالی میں صاف ہونے کے لیے چکر کھارہے ہیں جو پہلے ملک میں تو اقتدار بٹوارہ کی صورت پی پی پی، مسلم لیگ ن میں پندرہ سال تک بانٹا گیا۔ مگر سندھ میں پی پی پی پندرہ سال تک اقتدار کی حق دار بنائی گئی اسی طرح جس طرح بنگلادیش سے شیخ مجیب الرحمن کی دختر حسینہ واجد کو حکومت امریکا، برطانیہ کی آشیرباد سے ملی تو بے نظیر صاحبہ نے پرویز مشرف سے اسی طرح اقتدار کا پندرہ سالہ این آر او کیا تو وہ ان ہی دو ممالک سے بھرپور رابطہ میں تھیں۔ یوں بنگلادیش اور سندھ کے حکمرانوں کی سیاست کا محور اس دورانیے میں یہ رہا کہ طاقتور سیاسی مخالفین کا صفایا اور کمزور حریفوں کو دبا کر برسراقتدار آیا جائے۔ یہ مماثلت اور طرز سیاست حیرت انگیز رہی۔ پی پی پی نے سندھ حکومت کو مٹھی میں بند رکھنے کے لیے بانی پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کا فارمولا اپنایا اور اُن کے حواریوں نے شہری آبادی کو گھٹا کر کم اور دیہی آبادی کو بڑھا کر اپنی حمایت کا سامان کیا۔ اور یہ سلسلہ ہائے دراز رہا کہ تازہ مردم شماری میں بھی کراچی میں یہ کٹوتی کا باسی سڑانڈ کا فارمولا اپنایا گیا۔ جماعت اسلامی کا احتجاج کرتے ہوئے حلق خشک ہوگیا مگر درستی نہ ہوسکی۔

دوسری طرف بڑھوتی دھاندلی اور جعلی ووٹوں کا سندھ کے دور دراز علاقوں میں اندراج پی ڈی ایم کے امام مولانا فضل الرحمن کے سندھ میں دست راست راشد محمود نے گھر کے بھیدی کے طور پر یوں بیان فرمایا کہ کندھ کوٹ کشمور ضلع جمعیت کا گڑھ رہا اور جمعیت علما اسلام کو ہمیشہ سے سازشوں سے شکست ہوئی ہے گزشتہ انتخابات میں کچے کے علاقے کی 13 پولنگ اسٹیشن پر پی پی پی کو 9 ہزار ووٹ ملے اور جمعیت علما اسلام کو ایک بھی ووٹ نہ ملا۔ یہ 13 پولنگ اسٹیشن کہاں ہیں یہ ڈاکوئوں کے ٹھکانے ہیں، ان علاقوں میں رینجرز 4 ماہ سے جانا چاہتی تھی وہ اس کچے کے علاقے میں نہ جاسکی تو پولنگ کیسے منصفانہ اور شفاف ہوگی۔ انہوں نے التجا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کھیل اب بند ہونا چاہیے۔ اس بیان سے جہاں دھاندلی کا انکشاف ہے وہاں یہ بھی بتانا ہے کہ جہاں ڈاکو راج ہے وہ پی پی کے راج دلارے ہیں ان میں ایک بھی ہمارے نہیں۔ سیاست اب سائنس ہوگئی، بات نعروں سے کہیں آگے بڑھ گئی ہے، اب کمرشل سیاست ہے کھلی مارکیٹ میں بولی لگتی ہے اور بے تحاشا سرمایہ صرف ہوتا ہے اور پی پی پی جو جیتی پارٹی کا تصور جہاں پندرہ سالہ اقتدار سے راسخ کرچکی ہے اس کا امیدوار کامیاب بولی سے وڈیروں کے ذریعے پولنگ خریدتا ہے۔ وڈیرہ بھاری رقم مراعات وصول کرتا ہے اور پارٹی جیت جاتی ہے۔ حکومت مل جاتی ہے، وڈیرہ ووٹنگ کے مرحلے میں مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو ایسا ڈراتا ہے کہ وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشدیم کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے اور سرکاری اسٹاف جو نگراں ہوتا ہے اس کو بھی کھائو پیو موج اڑائو اور ہم جیسے کہتے ہیں ویسے ووٹ چلائو، ٹھپے پہ ٹھپا، تیر پہ ٹھپا، جو پی پی پی کا مقبول نعرہ ہے کا عملی مظاہرہ وڈیرے کے کارندے کرتے ہیں، کوئی نہیں جو دم مار سکے۔ اسی طرح کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کانٹ چھانٹ کے ذریعے جہاں اپنی سیاسی قوت کو بڑھانے اور مخالفین کے حمایتیوں کو منتشر کرنے کی اہم تدبیر حلقہ بندی کے مرحلے میں ہوتی ہے، پی پی پی حکومت نے اس کا فائدہ اٹھا کر راستہ کامیابی کا دور اقتدار میں آسان کر ڈالا۔

سکھر کے شہری حلقہ کی جمع بندی یوں کی کہ دیہات کا شہری حلقوں میں پیوند لگا دیا یوں اپنی اکثریت کا سامان کرلیا۔ جماعت اسلامی سکھر مخمل میں ٹاٹ کے پیوند پر سراپا احتجاج ہے۔ نواب شاہ کے شہری حلقہ کی سیٹ NA-307 کو سابق صدر آصف زرداری کا محفوظ حلقہ انتخاب بنانے اور 85ء کی سی صورت حال سے بچانے جس میں آصف علی زرداری اور اُن کے والد حاکم علی زرداری کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اب تعلقہ دوڑ کی 4 دیہہ اس حلقہ میں شامل کردی گئی ہیں۔ پی پی پی نے 15 سالہ سندھ اقتدار میں مخالفین اور طاقت ور سیاسی گھرانوں جن میں جتوئی، مہر، سید، تالپور، شیرازی، سومرو، راہو برادری کے شیرازے بکھیر کر انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ گھرانے جو سندھ کی سیاست کے اہم ستون ہوا کرتے تھے ان کی جڑیں کھوکھلی یوں کیں کہ جن پتوں پر وہ تکیہ کرتے تھے وہی پتے ہوا دینے لگے۔ یوں ان مقتدر گھرانوں، پیروں، مخدوموں کی اب نام تک کی حد تک مانگی تانگی سیاست رہ گئی ہے۔ حلقہ بندی جو کامیابی کا اہم گُر ہے۔ صوبہ بلوچستان کے دو صوبائی حلقہ بندیوں کو درستی کا بلوچستان ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر کیا تو مقتدر عدالت عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بنچ نے جسٹس سردار طارق سعود کی سربراہی میں یہ فیصلہ کالعدم قرار یوں کہہ کر دیا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد حلقہ بندی پر اعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا اور تحریری فیصلہ میں لکھا کہ اگر اس وقت حلقہ بندی کا معاملہ دیکھا تو مقدمہ بازی کا سیلاب اُمڈ آئے گا جس سے انتخابی شیڈول متاثر ہوگا۔ ہم انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے، اس فیصلے سے سندھ کے حلقہ بندی پر معترض احباب بھی سمجھ گئے کہ جیسا ہے اور جہاں ہے اس کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، تو کیا یہ راج بھات یوں ہی چلے گا جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جس کا مال اس کا کمال ہوگا، لو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بھی ریمارکس دیے ہیں کہ نگراں حکومت کے زیر نگرانی خوف ناک نظام چل رہا ہے، انتخابات کے لیے مشاورت کی اجازت بنیادی حق ہے انتخابات میں نگراں حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اُٹھتا ہے، یعنی نگرانوں کی بھی نگرانی کی ضرورت عدالت بھی محسوس کررہی ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق بھی فرما رہے ہیں کہ الیکشن سے قبل انتخابات متنازع ہوگئے تو نتائج کوئی قبول نہیں کرے گا۔ حقیقی عوامی مینڈیٹ سے محروم حکومت ملک کے مسائل حل نہیں کرسکے گی، نام نہاد جمہوری حکومتوں اور مارشل لائوں میں 2 فی صد اشرافیہ کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ مسائل حل کرنے کے لیے خاندانوں کے بجائے جمہور کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی۔ عوام حق حکمرانی سے مزید محروم رہنے کا جواز قبول نہیں کریں گے۔ پی پی پی کا فلسفہ یہ ہے کہ سندھ ہاتھ سے نہ جائے، آدھی کو چھوڑ کر پوری کی طرف اتنا نہ جایا جائے کہ آدھی بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ وہ محتاط روئی سے قدم آگے بڑھا رہی ہے اور مقتدر حلقوں کے موڈ کو دیکھ رہی ہے۔ 1970ء کے انتخابات سے لے کر 2018ء تک کے انتخاب دھونس، دھاندلی، چشم پوشی، رعایت، امن پسند کو جتوانے اور ناپسند کو ہروانے کا شغل میلہ رہے ہیں۔ 1970ء میں جماعت اسلامی کی مقبولیت کو سبوتاژ کرنے کے منصوبہ کا اعتراف ایک اعلیٰ ایجنسی اہلکار کا آن ریکارڈ ہے جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی صورت نکلا۔ انتخابات میں پسند اور ناپسند نے فوج کے متعلق نفرت کو فروغ دیا۔ سندھ میں سندھودیش کا ڈراوا بھی سیاسی کلید ہے۔ 2024ء انتخابات کا مرحلہ 1970ء کے انتخابات سے مماثلت رکھتا ہے اور سندھ صوبہ مشرقی پاکستان کی سی صورت حال سے مماثلت اختیار کرتا جارہا ہے۔