امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے ایک جلسہ میں انتخابات کے حوالے سے کارکنان کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’’وقت آ گیا ہے کہ کارکنان اپنے حصے کے کام پر توجہ دیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ بہت سے لوگ آپ کو مایوس کرنے کی کوشش کریں گے۔ مایوسی کی مثال مرض کینسر سے مشابہ ہے، کینسر انسانی جسم کے لیے اتنا خطرناک نہیں جتنا مایوس کارکن تحریک کے لیے خطرناک ہے‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ ایک دور رس نتائج کے حامل فیصلے کے نتیجے میں اپنا جھنڈا اپنا نشان ’’ترازو‘‘ کے تحت جماعت اسلامی میدان میں اتر رہی ہے، اب یہ موقع کسی اور مباحثے کا متحمل نہیں ہو سکتا، سر دست معاملہ قرآن مجید کی آیت پر عمل پیرا ہونے کا ہے، ’’اولی الامر‘‘ کی دائرہ اسلام میں اطاعت- امیر جماعت اسلامی نے کہا ’’اس وقت حالات بہت اچھے ہیں آپ لوگوں سے ایک سوال کریں کہ فلسطین کا مسئلہ حق اور باطل ایک ایسا مسئلہ ہے کہ دنیا بھر کے کافروں نے بھی ظلم کو ظلم کہا، پیوٹن جیسے آدمی نے کہا کہ اگر غزہ کے بچوں کو دیکھ کر کوئی روتا نہیں ہے وہ انسان نہیں ہے تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے کیوں اب تک فلسطین کے لیے ایک جلسہ بھی نہیں کیا جب کہ یہ دونوں بڑی جماعت ہونے کے دعوے دار بھی ہیں؟ اس لیے کہ یہ ڈرتے ہیں کہ یہاں امریکی سفیر موجود ہے، ان کو پتا چلے گا تو ہمارا نام امریکا کے مخالفین کی فہرست میں شامل کردیا جائے گا، یہ اللہ کے بجائے غیر اللہ سے ڈرنے والے لوگ ہیں تو اب یہ موقع ہے کہ آپ لوگوں کو سمجھائیں ان کے کرتوت سے لوگوں کو آگاہ کریں اور اپنے انقلابی منشور سے لوگوں کو آگاہ کریں آپ اپنی طرف سے محنت کریں برکت اور نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
دور کی بات نہیں صرف گزشتہ ہفتہ حافظ نعیم الرحمن نے شہر کراچی میں ایک ایک دن میں پانچ پانچ پارکوں کا افتتاح کیا۔ جماعت اسلامی کے تحت یوسیز میں سڑکیں، گلیاں، پارکوں کی صفائی مرمت و تزئین کا کام جاری ہے۔ حافظ نعیم میئر بنتے بنتے رہ گئے تھے انہیں دھاندلی سے ہرا دیا گیا تھا، ان کے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن میں اور عدالتوں کے بہت پھیرے لگوائے گئے، پیپلز پارٹی پس پردہ حکمران اور متعصب انتظامیہ کی جانبداری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی، اس سب کے نتیجے میں ایک راستہ تو یہ تھا کہ مایوس ہو کر بیٹھ جاتے، جماعت اسلامی کے کونسلرز، چیئرمین اور ٹاؤن چیئرمین حلف نہیں اٹھاتے یا مزاحمتی سیاست کا آغاز کرتے کہ آؤ سنبھال لو یہ گلیاں اور چوک اور پارک اور کوشش کرتے کہ جتنا بھی عدم تعاون پیپلز پارٹی کے قبضہ میئر کے ساتھ کیا جائے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے شہر کو اور پیچھے لے جایا جائے تاکہ الزام قبضہ مئیر پر آئے اور یہ سارا عرصہ وہ قبضہ مئیر پر لعنت ملامت میں گزار دیتے، لیکن انہوں نے عزم اور حوصلہ سے ووٹرز کو کی گئی یقین دھانی کے مطابق اپنی ٹیم کی مدد سے اپنی بات کو سچ کر کے بتایا ’’فائلیں پھینک کر نہیں جائیں گے، اختیارات سے بڑھ کر کام کریں گے‘‘۔ مایوسی لفظ ان کی ڈکشنری میں ہے ہی نہیں، قبضہ مئیر کی رکاوٹوں کے باوجود جماعت اسلامی کی ٹیم اپنے دائرہ کار میں شہر اور شہریوں کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ حافظ نعیم کا یقین ہے کہ شہر کراچی میں نہ صرف میئر جماعت اسلامی کا بنے گا بلکہ آئندہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں اکثریتی تعداد میں وہ نشستیں حاصل کر پائیں گے۔ اگر کسی کو عزم یقین اور مصمم ارادے اور مایوسی کو اپنے پاس نہ پھٹکنے والے مرد مجاہدین کو دیکھنے کی تمنا ہے تو وہ کشادہ پیشانیوں اور سنت رسول سے مزین چہروں، کشادہ دل، بہادر اور دلیر سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمن کو دیکھ لیں، مایوسی جن کے پاس سے چھو کر بھی نہیں گزری اور اس سب کی پشتی بانی کے لیے جماعت اسلامی کے نوجوانوں پر مشتمل کراچی سے چترال تک ہر طرف ڈٹے ہوئے بے خوف نوجوان ہیں، ان کے حوصلے بلند ہیں، ان کا جنون دیدنی ہے، یہ اپنے قائدین پر فدا ہونے کا جذبہ رکھتے ہیں، یہ دن کے اپنی تحریک کے مجاہد ہیں اور راتوں میں اپنے ربّ کے آگے سر بسجود اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر ربّ سے توبہ کرنے والے اور اس سے ہی اپنی شْکوہ اور قوت کی دعا کے طالب۔ یہ کسی لالچ اور تمنا کے بغیر للہ فللہ اس الیکشن میں جو فی الواقع جہاد ہے اپنی تمام تر توانائیاں لگائے ہوئے ہیں، اگر کامیابی مل گئی تو ربّ کی کبریائی، عوام کی خدمت اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں گھولنے کے مواقع ملیں گے۔ مایوسی اور مایوس ہونے کی بات سر دست وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور رسول کے احکامات دل و دماغ سے تسلیم کرنے کے بجائے تاویلات میں پڑتے ہیں اور یہی منافقت کی نشانی ہے۔ بلا شبہ پاکستان کی اب تک کی تاریخ چاہے وہ 2013 کے الیکشن ہوں یا 2018 کے یا 2024 کے متوقع الیکشن، صحافیوں کی موج ظفر فضا بنانے کی کوشش میں ہے کہ پہلے سے منصوبہ اور چیزیں طے شدہ ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات کو بدلے گا کون؟۔ مایوس ہو کر بیٹھ جانے سے کبھی حالات نہیں بدلتے۔
جان لیجیے کہ بظاہر اگر بڑی رائے عامہ کے ساتھ کھڑی پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھیننے کی کوشش اور کاغذات نامزدگی مسترد کیے جا رہے ہیں تو صورت حال اس لیے یہاں تک پہنچی ہے کہ پارٹی لیڈروں کی اکثریت خوفزدہ اور مایوس ہو گئی، وابستگان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر غم و غصہ کا اظہار اور سوشل میڈیا پر مخالفین کے کارٹون اور ان سے مسخرہ پن یا پس پردہ حکمرانوں کو کوسنا اور برا بھلا کہنا، اپنے من پسند پس پردہ حکمرانوں کو لانے کی خواہش سے آج تک تو حالات نہیں بدل سکے ہیں، آئندہ کیا اس طرح حالات بدلے جا سکیں گے؟، زمینی حقائق تو نفی کرتے ہیں (غیب کا حال اللہ جانتا ہے) بڑی رائے عامہ پر مشتمل لوگوں کی مزاحمت مایوسی میں اور غصے میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی بہت کامیاب رہی ہے، مایوسی کی کیفیت سے فائدہ وہی اٹھاتا ہے جو ایک منصوبے کے تحت مایوسی پھیلاتا ہے۔
اب یہی موقع ہے کہ منصوبہ سازوں کے منصوبے کو عوامی طاقت اور جمہوری روایات برقرار رکھتے ہوئے ناکام بنایا جائے، اگر جماعت اسلامی کے کارکنان لوگوں کو جوق در جوق ترازو کے حق میں باہر نکالنے میں اور پولنگ اسٹیشن لانے میں کامیاب ہو گئے تو منصوبہ ساز نوشتہ دیوار پڑھ لیں گے وہ کسی سے بھی زیادہ ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں جنہوں نے کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ ’’یہ کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ لیکن عوامی غیظ و غضب کا ریلہ سب کچھ بہا کر لے گیا تھا (پس اے آنکھوں والو }سمجھ لو{ عبرت حاصل کرو۔ (القرآن)۔ سراج الحق نے کارکنان کو ہدایت کی ہے کہ ’’الیکشن کے انعقاد تک ہر کارکن متحرک رہے اور دوسروں کو متحرک کرے۔ اگر غزہ کے لوگوں کے لیے وہ جہاد ہے ہمارے لیے یہ جہاد ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں جماعت اسلامی کے لوگ جائیں گے تو پاکستان اسلامی نظام کا گہوارہ بنے گا‘‘۔