ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ 5 برس کی تھی جب 2006 میں اِس کے والد ِ گرامی لاپتا ہو گئے تھے۔ 2011 میں اْن کی مسخ شْدہ نعش مِلی تھی۔ وہ واپڈا کے ملازم تھے۔ ماہ رنگ کی چار بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ والد کی شہادت کے بعد یہ سب لوگ کراچی جاکر رہنے لگے تھے۔ 2016 میں ماہ رنگ کا اکلوتا بھائی بھی اچانک لاپتا ہو گیا۔ جس کا تاحال کْچھ پتا نہیں چل سکا۔ ماہ رنگ اپنے بھائی اور دیگر 8000 لاپتا بلوچوں کی کھوج میں کوئٹہ سے اِسلام آباد کے لیے پیدل مارچ پر نکلی ہے۔ اِس کے ساتھ ہزاروں خواتین اور بچے بھی ہیں۔۔۔ اِس کے رستے میں ڈھیروں مْشکلات ہیں جن میں ایک ریاستی طرز عمل ہے، لیکن ریاست سے شکوہ سکّہ رائج الوقت ہے جس کی کھنا کھن مارکیٹ کی فوری توجہ حاصل کرتی ہے، جبکہ بلوچستان کا اصل مسئلہ سردار ہیں، اس حقیقت سے ماہ رنگ بلوچ بھی واقف ہے لیکن اسے یہ حقیقت بیان کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ اس سچائی کو فرزند گوادر ہدایت اللہ بلوچ نے نہ صرف سمجھا بلکہ واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے، جب وہ زیر حراست تھے تو انہوں نے کہا کہ میں اصلاً سردار اختر مینگل کا قیدی ہوں۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ پورا بلوچستان سرداروں کا قیدی اور سردار ملک پر قابض ’’ارذالیہ‘‘ کے سہولت کار ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلوچستان میں سب ٹھیک ہے، مانا کہ کہیں نہ کہیں کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی، کبھی نہ کبھی حق تلفی بھی ہوئی ہوگی، لیکن کروڑوں اربوں کے حساب سے سرداروں نے ہر سال باقاعدگی سے بلوچستان کی معدنیات اور گیس کی مد میں رائلٹی لی ہے اور لے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے اْنہیں معدنیات کے بدلے رائلٹی کیوں دی گئی؟ اب ریاست پہ واجب ہے کہ اِس کی وضاحت کرے اور جو کچھ دیا گیا اْس کا حساب سامنے لائے۔ وضاحت کرے کہ بلوچستان کے سرداروں کو رائلٹی کس مقصد کے لیے دی جاتی ہے؟ کیا یہ ریاست کی کوتاہی نہیں کہ وہ براہ راست بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے بجائے سرداروں پہ تکیہ کیے ہوئے ہے؟ کیوں ہر سال کوئی نہ کوئی بلوچوں کے حقوق کا نعرہ لگا کر اسلام آباد میں خیمہ زن ہو جاتا ہے اور چند ہی دنوں میں راہنما بن کر اسلام آباد میں بلوچ سرداروں کا ہم عصر درجہ پاکر خاموش ہو جاتا ہے؟ کیوں کر ایک پیدل کروڑوں کی سواری کا سوار بن جاتا ہے؟ کیا پاکستان میں غائب صرف بلوچ ہی ہوئے ہیں؟ کیا پٹھان، پنجابی، سندھی اور مہاجر غائب نہیں ہوئے؟ کیا کوئی نہیں جانتا کہ غائب ہونے والوں میں سے اکثریتی تعداد اْن کی ہے جن کی اپنی رضا تھی۔ آج مسنگ پرسن کچھ پڑوس میں تاک لگائے بیٹھے ہیں اور کچھ یورپ و برطانیہ میں۔ جن کے لخت جگر وردی میں خون میں لت پت ہوکر اْنہی کے آنکھوں کے سامنے زمین میں دفن ہو جاتے ہیں، وہ کس کھاتے میں گئے؟ اس بھیانک کھیل میں کیا یہی مسنگ پرسن انوالو نہیں ہوتے؟ الخدمت، اخوت، ایدھی اور چھیپا جیسی تنظیم بنا کر بنا رنگ و روپ، بنا مذہبی تفریق کے، ذات پات زبان سے بالا تر ہوکر انسان کی خدمت کرنا مْشکل ہے۔ حقوق کا نعرہ لگا کر کبھی منظور پشتین، کبھی محمود اچکزئی، کبھی الطاف حسین اور اب ماہ رنگ جیسے لوگ لیڈر جلد بن جاتے ہیں۔ یہ لیڈر اپنے سرداروں کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ بلوچستان آپ کی جاگیر ہے، کہ سارا فنڈ اکیلے ہڑپ کر جاتے ہو، وزیر مْشیر بن کر نگر نگر عیش و عشرت کرتے ہو، جواب دو، حساب دو۔ پھر اسلام آباد آکر ریاست سے پوچھے کہ کتنا پیسہ دیا؟ جو دیا اْس کا آڈٹ کیا؟ آڈٹ رپورٹ دکھائی جائے۔ آخر ریاست کیوں چْپ ہے۔ بتاتی کیوں نہیں کہ کتنے اِن کے ہاتھوں مس ہوئے اور کتنے ورغلانے سے، جزبہ جہاد جگانے سے اور معصومیت سے مسنگ پرسن بن کر حملہ آور ہوئے اور کتنے ملک سے باہر سکونت پزیر ہوئے۔ اصل مشکل میں عام سیدھا سادہ رزق کا متلاشی بلوچ ہے جو سردار، نام نہاد انقلابیوں اور ریاست کی کشمکش کی چکّی میں پس رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عام بلوچ مسائل کا شکار ہے لیکن کلپر بگٹیوں کے مصائب کا ذمے دار کون ہے، جن پر اکبر بگٹی نے زمین تنگ کردی تھی جس کے سبب ہزاروں افراد بلوچستان سے ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے نواح میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ بلوچستان کی سب سے بڑی دولت سوئی کے مقام سے برآمد ہونے والی قدرتی گیس ہے جس کی رائلٹی بلا شرکت غیرے سردار اکبر بگٹی وصول کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بگٹی سردار گیس کمپنی میں سیکڑوں ملازمین بھرتی کرانے کا استحقاق بھی رکھتے ہیں۔ یہ ملازمین کمپنی سے تنخواہ وصول کرتے اور سردار کی چاکری کرتے ہیں۔ کمپنی مجبور ہے کہ اپنی چند بہترین گاڑیاں مع ایندھن سردار کی خدمت کے لیے حاضر رکھیں۔ میرے ایک دوست نے جو زرعی ترقیاتی بینک کے ریجنل مینیجر تھے بتایا کہ معاملہ صرف قدرتی گیس اور بگٹی قبیلہ کا نہیں ہے، ہر قبائلی سردار سرکاری اداروں خصوصاً واپڈا، ریلوے اور بینکوں سے ناجائز مراعات حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور وقتاً فوقتاً بجلی کے ٹاوروں، گیس کے پائپوں اور ریل کی پٹریوں کو نقصان پہنچا کر اسے نوجوانوں کی ناراضی کا نام دیتا ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کا ایک رخ بلوچستان میں کاروبار اور سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت کرنے والے پنجابیوں اور مہاجروں کی جان و مال کو لاحق خطرات ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ایسے ہزاروں افراد کا خون ناحق تقاضا کرتا ہے کہ بلوچستان کے مظلوموں کے ساتھ ساتھ ظالموں کا بھی ذکر ہو اور انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچانے کی فکر کی جائے۔