پروفیسر مسلم سجاد کی علمی و تحریکی خدمات

693

پروفیسر مسلم سجاد کی علمی و تحریکی زندگی کا احاطہ کرنا مجھ ایسے کم علم اور شکستہ قلم کے لیے ازحد دشوار کام ہے۔ مگر کیا کیا جائے ان سے محبت و عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی شفقت و سرپرستی پر ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔ استاد کی مثال اس روشن ستارے کی ہے جو اندھیری رات میں اپنی ضیا پاشی کے ذریعے امید و حوصلوں کی دنیا جگانے والوں کا رہنما ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خلوص و لگن کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کرے۔ یقینا ایسی صورت میں اس کے شاگرد جوش و جذبے کے ساتھ محنت اور آگے بڑھنے کا حوصلہ پائیں گے جس کے لیے استاد ان میں عشق اور خودی کے جذبے کو بیدار کریں تا کہ اسلاف کے کارناموں کی یاد تازہ ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ محب وطن ہو اور ملک کی نظریاتی اساس سے نہ صرف واقف ہو بلکہ ان سرحدوں کی حفاظت کو اپنی ذمے داری جانتے ہوں۔ ایسے طلبہ کو قابل فخر شہری بنا کر ان میں مثبت سوچ پیدا کرکے انہیں قومی یکجہتی اور ثقافتی یگانگت کے رنگ میں رنگ کر اقوام عالم کے ساتھ برابری کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات کے لیے تیار کیا جائے۔ ان خوبیوں کی مالک ایک ہستی جو اس ذمے داری کا احساس رکھتی تھی اور اسی پر عمل پیرا ہمیں داغ مفارقت دے گئی پروفیسر مسلم سجاد کی تھی۔ اگر ہم اپنے معاشرے پر غور کریں تو جابجا انسانوں کا ازدحام نظر آتا ہے مگر شعور آدمیت کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس پر بہت کم لوگ پورے اُترتے ہیں۔ بقول پروفیسر خالد اقبال جیلانی: ’’آدمی گوشت اور ہڈی کے اس بولنے اور چلتے پھرتے ڈھانچے کو نہیں کہتے جس پر چند اندرونی خواہشات سواری کرتی ہیں بلکہ آدمی نام ہے شعور اور احساس کا، آدمی نام ہے اصول اور ایمان کا، آدمی نام ہے سیرت اور اخلاق کا اور یہ مخلوق ہمارے ہاں ایک ناقابل ذکر گروہ کا مقام رکھتی ہے‘‘۔
بلاشبہ ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جن شخصیات کو ان اقلیتی گروہ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے ان میں محترم مسلم سجاد صاحب بھی شامل ہیں۔ آپ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قافلے کے ایک ایسے راہی ہیں جو عشق رسولؐ اور اسی عشق لازوال کی سرمدی روشنی سے راہ متعین کرتے اور اسی پر گامزن نظر آتے ہیں۔ یقینا آپ ہی جیسے لوگوں کے لیے علامہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا تھا کہ ’’ہمارے یہاں ادب میں دو نظریات ہیں مگر میری دانست میں ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو ادب برائے پاک زندگی کا قائل ہے جس کی زندگی کا مقصد ربّ کائنات کی واحدنیت اور نبی محترمؐ کی غلامی سے بڑھ کر اور کچھ بھی تو نہیں‘‘۔ پروفیسر مسلم سجاد نے اسلام کے پیش کردہ حقائق کو درست سمجھتے ہوئے معاشرت، معاش تمدن اور سیاست وغیرہ کے اسلامی اصولوں پر ایمان رکھا اور اپنی صلاحیتوں کو اس طرح بروئے کار لاتے ہوئے جو کچھ تخلیق کیا وہ اسلامی ادب کی ایک مثال کہا جاسکتا ہے۔ آپ نے اسلام کی ان اخلاقی اقدار کو پروان چڑھایا جن کے متعلق ہمارا نظام حیات اس دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتا ہے۔ اس لیے شعوری طور پر ان کی تحاریر میں اسلامی نظریہ ادب کا عکس نمایاں ہو کر سامنے آیا۔
مسلم سجاد صاحب اسلامی فکر کے ایسے نمائندہ ادیب ہیں جن کی نگارشات اصلاح معاشرہ اور فلاح و کامرانی کی ایسی راہیں متعین کرتی ہیں جو سراسر کامیابی سے سرفراز کرسکتی ہیں کیونکہ آپ گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ اپنی سیرت و کردار، عمل پیہم، خلوص اور بے لوث خدمت انسانی کا پیکر بن کر ہمارے درمیان موجود رہے۔ آپ نے دنیاوی عزت و شہرت، جاہ ہشم اور سرکاری عہدوں سے بالاتر ہو کر اُخروی کامیابی پر نگاہ جمائے رکھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اپنی موت سے محض دو ہفتے قبل ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ والدین نے دنیاوی ضرورتوں کے اعتبار سے عملی زندگی کی جن راہوں کا خاکہ پیش کیا تھا وہ اس اعتبار سے بڑا کامیاب رہا کہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہتے ہوئے مجھے اقبال کے شاہینوں کی ذہنی و فکری تربیت کا خوب خوب موقع ملا پھر ملازمت سے ہونے والی آمدنی بھی اتنی ضرور تھی کہ اہل خانہ کی ضروریاتِ زندگی باآسانی پورے ہوتے رہے اور جب سے پنشن دگنی ہوئی تو سرکاری ملازمت اختیار کرنے کے لیے والدین کی خواہش پر رہ رہ کر رشک آیا اور ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے ہمہ وقت ہاتھ اٹھائے رہتا ہوں۔ اس موقع پر میں نے پوچھا کہ آپ نے محض 25 سال کی ملازمت کے بعد ریٹائرمنٹ کیوں لی جس پر وہ کہنے لگے اگر پچیس سال کی پابندی نہ ہوتی تو میں اس سے بہت پہلے ریٹائرمنٹ لیتا اور تحریک اسلامی کے لیے اپنی زندگی وقف کردیتا۔ اور میرے ربّ نے بڑی مہربانی کی۔ قریباً دو عشرے میں اپنی خواہش کے مطابق اُخروی کامیابی کے لیے کوشاں ہوں۔
میرے خیال میں خرم مراد کی تحاریر اور تقاریر نے ان پر بڑے گہرے اثرات ثبت کیے تھے وہ دوران ملازمت بھی اس مقصد کو مقدم رکھے ہوئے تھے۔ بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جماعت اسلامی کے ہر اول دستے میں نہ صحیح اس کارواں میں شامل ضرور رہے اور اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے کراچی سے لاہور ہجرت کی اور منصورہ میں رہتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی جماعت اسلامی کے لیے وقف کردی ان ہی کے دور میں ترجمان القرآن، عالمی ترجمان القرآن بنا اور ان کی شبانہ روز محنت کی بدولت تعداد اشاعت کے اعتبار سے دیگر دینی رسائل میں سب سے نمایاں ہو کر سامنے آیا۔ موضوعات کے انتخاب اور مضامین کی تدوین میں ان کی خصوصی دلچسپی قارئین کے مزاج کے عین مطابق ہوا کرتی تھی۔ خصوصاً ایک شمارے میں میری تحریر ’’مسکراتے ہوئے السلام علیکم‘‘ تدوین میں جو انہوں نے چار چاند لگائے وہ میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھے۔ اتنے بڑے آدمی تھے مگر جس طرح ہم ایسے نئے اور نا تجربہ کار لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے کہ حوصلہ افزائی پا کر مزید کچھ لکھنے کی ہمت پیدا ہوپاتی آپ نے زندگی کے معرکہ ہائے کشاکش سے گزر کر غم جاں، غم جاناں، غم انساں اور غم ایماں سب کا تجربہ کرلیا۔ مگر آپ نے ان تمام غموں میں غم ایمان کو مقدم جانا اور دین کے سہارے معاشرے کی اصلاح کو اپنا مقصد حیات جانا۔
انہوں نے خدا پرستی کی روشن راہیں وا کرتے ہوئے تمام انبیا اور خصوصاً نبی آخرؐ کی تعلیمات کے ذریعے بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس راہ پر گامزن کیا جو خدا پرستانہ تہذیب کی قدریں ہیں اور یہی اقدار خیر اور شر کے تقابل میں انسانی زندگی کی تعمیر کا باعث بنتی ہیں جو درحقیقت ظلمت کی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہوئے اس سحر کے طلوع ہونے کا خواب ہے جس کی تلاش میں ہر ایک سرگرداں ہیں۔
پروفیسر مسلم سجاد نے ملازمت سے سبکدوش ہو کر جس مقصد کی خاطر زندگی تج دی وہ ایک ایسی راہ تھی جس پر وہ خود اعتمادی سے حصول مقصد کے واضح شعور کے ساتھ جذبہ اخلاص تحریکی و ادبی ذوق سلیم کے ساتھ گامزن رہے۔
(جاری ہے)
آپ تحریکی اور نظریاتی ہونے کے باوجود سطحی، وقتی اور صحافتی نہیں بنے۔ آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستگی میں گزرا آپ نے اس اعتبار سے اپنایا کہ اقبال کے شاہینوں کی تربیت کریں اور یہاں کی نسل نو کے لیے تعلیم و تربیت کی وہ فضا فراہم کریں جس میں پروان چڑھ کر وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں باکمال ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین انسان اور مکمل انسان کی تعریف پر پورے اترے جس کے لیے ضروری تھا کہ ان کی ذہنی نشوونما اسلامی خطوط پر کی جائے مگر ان کا واسطہ جن لوگوں سے پڑا ان کے خیال میں طلبہ کو معروضی طور پر غیر جانبدارانہ انداز میں تعلیم دی جانی چاہیے تا کہ وہ خود زندگی کے مسائل اور حقائق کا مشاہدہ کرتے ہوئے نتائج اخذ کریں حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ معروضی انداز کیمرے اپناتے ہیں۔ انسان دل و دماغ رکھتا ہے اس لیے اس کے احساسات و جذبات بھی ہیں جن کی شمولیت کے بغیر استاد اور شاگرد کا رشتہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا اور پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ایک قوم ہوتے ہوئے اپنے عقائد، نظریہ زندگی، روایات اور مقصد حیات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے کلچر کو فروغ دے سکیں۔ بلاشبہ ہم اپنا ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں جس کی روشنی میں اپنے مسائل معاملات اور حقائق کو حل کرنے کی صلاحیت بھی پاتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کچھ کتابیں پڑھا دینے اور علوم و فنون سکھا دینے سے تشنگی ختم ہوجائے البتہ تشکیل سیرت کو کتابی علم پر مقدم جانتے ہوئے بنیادی انسانی اخلاقیات بیدار کی جائیں تو ہم اپنی روایتی فرض شناسی، جفاکشی، صبرو ثبات، عزم و استقلال، باقاعدگی و باضابطگی اور ضبط نفس کے ذریعے کامیابی کی منازل طے کرسکتے ہیں۔
پروفیسر مسلم سجاد گورنمنٹ سپیریئر سائنس کالج کراچی میں بحیثیت استاد اپنی فرض شناسی کی اعلیٰ مثال کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں ان کی سنجیدگی متانت اور طلبہ کے ساتھ بے لوث وابستگی ایسی مثال ہے جسے یادگار کہا جاسکتا ہے۔ بظاہر کم گو تھے مگر جب بھی کلاس روم میں جاتے گہرے اور عمیق مطالعے کی بنا پر مدلل انداز میں لیکچر دیتے موضوع کا اتنے بھرپور انداز میں احاطہ کرتے کہ طلبہ کے ذہنوں میں آنے والے سوالات لبوں پر آئے بغیر جواب پا جاتے، پھر بھی وہ طلبہ میں اعتماد قائم کرنے کے لیے انہیں سوالات کرنے کا موقع دیتے ورنہ خود ہی اپنے لیکچر کے دوران اٹھائے گئے نکات کے بارے میں سوالات کرکے اعتماد کی فضا قائم کرتے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ سائنس کے طلبہ کی ذہنی تربیت ملکی ترقی کے لیے لازم ملزوم ہے۔ اس لیے ان کے اندر اعتماد کی وہ فضا قائم ہونی چاہیے جو ہر میدان میں کامیابی کے پھریرے اڑانے کے لیے ضروری ہے۔ آپ تنظیم اساتذہ پاکستان سے جڑے رہے احباب نے جب بھی ذمے داریاں ڈالیں یہ کہہ کر معذرت چاہی کہ میں اس کا اہل نہیں مگر ساتھی بھی کہاں چھوڑنے والے تھے انہیں صوبائی اور مرکزی انتظامی (شوریٰ) کے لیے منتخب کرلیتے یوں پالیسیوں کی تیاری اور عمل درآمد کے حوالے سے ان کا کلیدی کردار رہا۔ وہ سمجھتے تھے کہ بہتر تعلیمی نظام کے قیام کے لیے اچھے اور تحریکی مسلمان استاد کی ضرورت ہے جو خود بھی قومی تہذیب کو اسلام سے لازم سمجھے۔ علاقائی اور لسانی روایات کے بجائے تہذیبی روایات کو اپنائے اور انہی کو برحق جانتے ہوئے خود بھی بہترین سیرت کے حامل اور باکردار ہوں۔ یقینا ایسے استاد اپنے طالب علموں کی تیاری میں ربویت خداوندی کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے شعوری اعتبار سے طالب علم کے ذہن نشین یہ بات کراتے ہیں کہ یہ دنیا اللہ کی سلطنت اور اسی کی کرشمہ سازی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ ہم اس کے خلیفہ ہیں، یہ سب کچھ اسی کی عطا ہے، ایک امانت ہے جسے اگلوں تک پہنچانا ہماری ذمے داری ہے۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات جزو لازم ہوں گی تو اپنی اقدار و روایات سے رشتہ بھی استوار رہے گا۔ یوں عصر حاضر کے جدید علوم پڑھانے سے قبل بچے کے ذہن اسلامی اقدار، اسلامی عقائد اور اسلامی اخلاقیات پر اس قدر پختہ ہو کر اس کا ذہن کسی مرحلے میں بھی شک و شبے کا شکار نہ ہو کہ دین اسلام محض ساتویں صدی عیسویں کی ایجاد ہے۔ ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو فکر اسلامی اور نظام اسلامی سے واقف ہو اور جو روح اسلامی سے سرشار اس نظام کو قائم کرنے کے خواہاں ہو۔
تنظیم اساتذہ پاکستان کی انتظامیہ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے لاہور بھی جاتے تھے اور یہی میرے اور ان کے تعلق کی بنیاد ٹھیرا، وہ لاہور گئے تو پروفیسر ظفر حجازی صاحب نے کچھ ایسے کاغذات کے فوٹو کاپی کا پیکٹ انہیں تھما دیا جو میرے تحقیقی مقالے سے لگا کھاتے تھے خط کے ذریعے مطلع کیا کہ میں گورنمنٹ سپیریئر کالج جا کر اپنا پیکٹ وصول کرلوں۔ میں پہنچا تو موصوف لیبارٹری میں موجود طلبہ کو پریکٹیکل کروارہے تھے۔ مجھے اشارے سے بیٹھنے کو کہا اور طلبہ کو پریکٹیکل کی عملی ترکیب بتاتے رہے کوئی پندرہ منٹ کے بعد آئے معذرت چاہی تو میں نے کہا ’’تدریس مقدم ہے اس میں معذرت کی کیا بات‘‘ یہ ملاقات ہمارے اور ان کے درمیان تعلقات کی بنیاد پر اور پھر ان سے بالمشافہ کم مگر ٹیلی فون پر ملاقاتیں رہیں، اتنے بڑے عالم تھے مگر نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے تھے۔ جب میں نے ’’مسجد سے بچوں کا تعلق‘‘ لکھا اور ان کی خدمت میں ارسال کیا تو فون پر کہنے لگے کہ آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں ان میں سے چند ایک میرے لیے بالکل نئے ہیں۔ میں آپ کی تحریر پڑھنے سے قبل چھوٹے بچوں کی مسجد میں موجودگی کا مخالف تھا مگر آپ نے جن روایات کو پیش کیا اس سے نہ صرف رائے بدلی ہے بلکہ اپنے سابقہ طرزِ عمل پر ربّ العالمین سے معافی کا خواست گار بھی ہوں۔
ان کی موت سے چند دن قبل میں نے کہا لاہور میں موسم کی شدت آپ کو تنگ تو کرتی ہوگی کیونکہ آپ نے زندگی کا بیش تر حصہ کراچی میں گزارا جہاں کا موسم انتہائی معتدل ہے۔ میرا سوال سن کر گویا ہوئے کہ لاہور میں کوئی میں اکیلا تو نہیں رہتا ایک خلقت یہاں آباد ہے اور قریباً دو عشرے گزرنے کے بعد بھی یہاں کے موسم کا عادی ہوچلا ہوں۔ یوں تو ہر ایک کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے مگر ان کی محبت اور شیفتگی اپنی چھوٹی بیٹی طوبیٰ عبدالرب سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ ایک تو وہ چھوٹی بیٹی تھی اور دوسرے اس کے بچے بھی چھوٹے تھے جن کی قربت ان کے لیے تفریح و مسرت کا سامان بہم پہنچاتی تھی۔ گزشتہ رمضان المبارک کے موقع پر مجھے ہدایت کی ان کی قرۃ العین طوبیٰ عبدالرب کے لیے خلاصہ تراویح اور دعائوں کی کتاب ارسال کردوں کیونکہ وہ مطالعہ کی بہت شوقین ہے۔ میں نے ارشاد کی تعمیل کی اور پھر ان کی موت کے بعد اس بیٹی کو تعزیتی خط بھی لکھا جس پر طوبیٰ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بہت دیر تک ان کی محبت و شفقت کے واقعات سنائے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی درخواست کی۔
جب بھی کوئی ایسا شخص دنیا سے اُٹھ جاتا ہے جس کی کسی خاص شعبہ ہائے زندگی سے انفرادیت مسلم ہو تو بہی جملے سننے کو ملتے ہیں۔ ایک خلا پیدا ہوگیا ہے، اب ان سا کہاں، ایک بساط لپیٹ دی، ایک باب ختم ہوگیا، ایک عہد ختم ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ بلاشبہ یہ اور اس جیسے الفاظ روایتی سہی مگر اس اعتبار سے ان کی حقیقت برحق معلوم ہوتی ہے کہ مرنے والے کا کام تو باقی رہ گیا مگر اب مزید کے امکان موجود نہیں۔ پروفیسر مسلم سجاد کی زندگی اور کارہائے نمایاں کو سامنے رکھیں تو روشن دریچوں سے کرنیں بکھرتی ہوئی ماحول کو منور کررہی ہیں۔ انہوں نے بحیثیت معاون مدیر عالمی ترجمان القرآن کے موضوعات کے انتخاب بالخصوص معاشرت، سیاست، تہذیب و تمدن کے حوالے سے وہ کام کیا جو آنے والوں کے لیے راہ مستقیم ثابت ہوسکتا ہے پھر خود ان کی تحاریر معنویت سے بھرپور علمیت اور جامعیت کا نمونہ ہوا کرتی تھیں۔ ان کا مشاہدہ انتہائی وقیع تھا ممکن ہے ادارت کی ذمے داری کی بنا پر بیش بہا تحاریر ان کے مطالعے نے ان میں گوہر نایاب ودیعت کردیا۔ بقول رضا علی عابدی ’’انہوں نے عہد تمام نہیں کیا وہ ایک عہد کی بنیاد رکھ گئے ہیں۔ ان کے جانے سے باب ختم نہیں ہوا وہ ایک باب کا آغاز کرگئے ہیں۔ انہوں نے بساط لپیٹی نہیں، وہ بساط پر ایسی چال چل کر گئے ہیں کہ اس کے بعد میدان کھلے ہیں اور دعوت عام ہے کہ کوئی اٹھے اور اگلی چال چلے، وہ خلا چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ ان سے پہلے جو خلا تھا اسے پُر کر گئے ہیں۔ لوگوں کو زندگی میں خوش قسمتی ملتی ہے وہ موت میں بھی نصیب ور نکلے۔ لوگ اپنی نیکیاں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، وہ اپنی نیکیاں پیچھے آنے والوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں ’’ثواب کسی کے حصے میں آئے تو یوں آئے‘‘۔ آج پروفیسر مسلم سجاد نے جس نظریے کو اپنایا اسی پر تاحیات قائم رہے، اپنی قلمی کاوش کے ذریعے لوگوں کی ذہنی و قلبی تربیت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ وہ ملک میں اسلامی انقلاب کے خواہاں تھے اور اسی کے لیے بساط بھر کوششوں میں مصروف رہتے ہوئے اسی حالت میں اپنے رب سے جا ملے۔ ربّ العالمین ان کی مغفرت فرمائے۔ درجات بلند کرے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے (آمین)