بات تو ہے سچ مگر بات ہے رسوائی کی

647

جنگ عظیم کی تباہی کے بعد وزیراعظم برطانیہ چرچل نے دریافت کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو پھر ہم دوبارہ کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ یوں یاد رہا کہ ملک کی فیصلہ کن شخصیت چیف آف آرمی اسٹاف حافظ عاصم منیر سی پیک کی ڈور سلجھانے اور ملک کی معیشت کو سنوارنے کے لیے دنیاوی ناخدا امریکا کے دورے پر ان حالات و واقعات کے دورانیہ پر تھے کہ غزہ معرکہ کی صورت میں کہ امت مسلمہ پر آ کے عجب وقت پڑا ہے۔ اس مرحلے میں چاہیے تو یہ تھا کہ اس تاریخی عمل کا اعادہ ہوتا جب ذوالفقار علی بھٹو ملک پر متمکن ہو کر اسیر قیدیوں اور ملک کے چھینے حصہ کو واگزار کرنے کے لیے بھارت کے دورے پر جارہے تو جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی بھٹو کو الوداع کرنے کے لیے ائرپورٹ پر تشریف فرما ہوئے اور ایک صحافی کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا ہم ملک اور قوم کے مفاد میں سب ایک ہیں۔ میری آمد اس کا پیغام ہے، بھارت کو۔ اُس وقت حب الوطنی، یکجہتی، اسلامی اخوت اور سیاسی اختلافات دشمنی نہیں ہوا کرتے تھے۔ سیاسی حوادث جو پیدا کردہ ہیں اس نے یہ تقاضے دفن کردیے۔ اب تو انتظار ہوتا ہے کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے ملک کے حکمرانوں کو تر نوالہ بنا کر دشمنوں کے حضور مجبور و لاچار کرکے مال کھرا کیا جائے۔ یہ کھیل این جی اوز، دہشت گرد، ضمیر فروش صحافی، لبرل کہلانے والے، مدتوں سے مملکت خداداد میں بیرونی سرمایہ سے قوم سے نادان، نمک حرامی کرکے کھیل رہے ہیں۔

ہاں تو آرمی چیف کا یہ پہلا اور اہم دورہ اہم ترین ملک امریکا کا تھا ان کا یہ دورہ تھا تو پاکستان میں بلوچوں کے نام پر احتجاج کا دور دورہ چل رہا تھا اور ہے۔ سی پیک سے جڑا صوبہ بلوچستان کی مرد و خواتین کا لانگ مارچ ماہ رنگ بلوچ کررہی تھی اور وہ دنیا کو پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا پیغام دے کر ان سفاک ممالک امریکا، اسرائیل، فرانس، برطانیہ کی غزہ میں مسلم خون کی ہولی سے توجہ ہٹانے کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔ ماورائے عدالت قتل واقعی ظلم اور انصاف کا خون ہے اس کی کسی بھی حوالے سے حمایت نہیں کی جاسکتی مگر اس بات کی بھی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے کہ اس وقت کا انتخاب کیا جائے جب ملک اور قوم کی یکجہتی کے پیغام کی ضرورت اشد ہو۔ بات آتی ہے ماورائے عدالت قتل، ہاف فرائی، مسنگ پرسنگ کی تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ سب کچھ عدالت کے انصاف اور تاخیر اور بھاری اخراجات کی بدولت ہی تو ہے۔ عدالت بتائے کہ وہ بال کی کھال نکالنے اور گواہوں کو بھگتانے کے حوالے سے کتنا ریلیف ان مجرموں تک کو دیتی ہے جو جرائم کی دنیا کی کھلی کتاب ہوتے ہیں، ان کے کاربد اور کشت خون کی داستانیں ہر اک کی زبان پر ہوتی ہیں جو ایسا خوف پیدا کرتی ہیں کہ حکومت ان کے آگے سرنگوں ہو کر آسان راہ کی متلاشی ہوتی ہے تو عام گواہ جو عدالت کو انصاف کے نام پر درکار ہوتا ہے موت کے خوف سے لب کشائی نہ کرپاتا ہے۔

سرفراز بنگلزئی، بدنام زمانہ دہشت گرد جس نے مستونگ میں بس سے مسافروں کو اتار کر ان کی شناخت چیک کرکے بے گناہوں کی خون سے ہولی کھیلی۔ کورکمانڈر کا بلوچستان میں ہلی کاپٹر مار گرانے اور شہید کرنے کا دعویدار ہوا اور جس کی قتل و غارت کی سرکار کے ریکارڈ میں داستانیں درج ہیں اس کو ستر ساتھیوں سمیت گنگا اشنان کرکے عام معافی کا اعلان سرکاری چھتری کے نیچے قومی دھارے کی بات کرنا بتاتا نہیں ہے کہ ان ظالموں کو سزا دلانا اور قانون نے مروجہ تقاضے پورا کرنا گورکھ دھندہ ہے اس کے لیے عمر نوح درکار ہے۔ کوئی بھی ذی شعور مسنگ پرسنگ، ہاف فرائی، ماورائے عدالت قتل کی اجازت ہرگز نہیں دیتا مگر عدالت کے ہاتھوں فساد فی الارض جس کی سزا قتل ہے اس کو مہلت تاخیر کی فیصلے سے ملنے کی حمایت نہیں کرسکتا۔ ایک جج صاحب کے حوالے سے بات شائع ہوئی کہ ہم زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں قتل کے واقعے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں مگر فیصلہ اس وجہ سے نہیں سنا پاتے کہ فریقین کے وکلا کی روزی روٹی زیادہ سے زیادہ سماعت کے چکروں میں ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ عدالت کے نظام کی درستی کا ہے جس کے متعلق اب اس مقولہ کو درست سمجھا جانے لگا ہے کہ انصاف کے لیے دولت قارون، عمر نوح اور صبر ایوب درکار ہے سو شارٹ کٹ اختیار کرلو!