مغربی تہذیب کے زوال کی پیشگوئی اب ’’توتے‘‘ بھی کرنے لگے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسپنگلر ٹوائن بی اور توتوں کے علم میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔
جن لوگوں نے ’’منطق الطیر‘‘ کا ذکر بھی سنا ہے یا جنہوں نے داستانوں کو ذرا سی ’’ذہانت‘‘ کے ساتھ پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ داستانوں میں جہاں جہاں پرندوں کا ذکر آیا ہے۔ ’’شعورِ برتر‘‘ کی علامت کے طور پر آیا ہے۔ اس تناظر میں توتوں کا ذکر اسپنگلر اور ٹوائن بی کے ساتھ کرنا توتوں کے ساتھ شدید زیادتی کی بات ہے۔ لیکن قصہ یہ ہے کہ یہاں توتوں سے مراد توتے نہیں بلکہ علم نجوم کے ’’ماہرین‘‘ ہیں۔
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ مغرب میں جیسے جیسے مادے پر زور بڑھ رہا ہے توتوں کی اہمیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے علامہ اقبال اس بات پر بہت ناراض ہوئے ہیں کہ ستارے ہمیں افلاک کی کیا خبر دے سکتے ہیں وہ تو خود خلا کی بیکرانیوں میں خواروزبوں ہیں لیکن علم نجوم کے روایتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہرحال ایک علم ہے مگر مغرب نے ’’اسٹارز‘‘ کا جو توتا پالا ہے وہ بیش تر معاملات میں جھوٹ بولتا ہے اور وہ ہرگز اتنا ہمہ گیر وہمہ جہت اور اہم نہیں جتنا کہ اسے بنادیا گیا ہے۔
خیر! یہ الگ کہانی ہے۔ اس وقت ہماری دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نئی صدی اور نئے ہزاریے کے حوالے سے مغرب سے جو پیشگوئیاں آئی ہیں ان میں توتوں کی پیشگوئیاں بھی شامل ہیں اور ان پیشگوئیوں میں اس امر پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ سن دو ہزار عیسوی میں مغرب کا زوال ہوجائے گا اور اس کی ابتدا امریکا سے ہوگی۔ ان پیشگوئیوں کے ساتھ ساتھ ایک اور پیشگوئی آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سال اہل زمین کا رابطہ یقینی طور پر ایک خلائی مخلوق کے ساتھ ہوگا اور ہم اس مخلوق کو ایک عالمگیر ٹی وی نیٹ ورک پر براہ راست ملاحظہ کریں گے۔ اس پیشگوئی کی کچھ تفصیلات دلچسپ اور اہم ہیں۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ خلائی مخلوق اگرچہ فیض رساں ہونے کا دعویٰ کرے گی لیکن درحقیقت وہ انسانوں کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ تاہم اہم ترین بات یہ کہی گئی ہے کہ اس مخلوق کے ظہور سے سب سے بڑا مسئلہ مذاہب کے لیے کھڑا ہوجائے گا کیونکہ مذاہب کا دعویٰ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے جبکہ خلائی مخلوق کا ظہور ثابت کردے گا کہ انسان سے زیادہ ذہین اور اس سے ہزار گنا بہتر ’’ترقی‘‘ کی حامل مخلوق کسی دوسرے سیارے پر موجود ہے۔ توتوں کے مطابق اس طرح ’’عقیدے‘‘ کے حوالے سے ایک بحران کھڑا ہوجائے گا اور یہ مغرب کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کا بھی مسئلہ ہوگا۔
ہم نے ایک بار پہلے بھی عرض کیا تھا کہ مغرب نے خلائی مخلوق کو ایک عقیدہ بنانے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور صرف ہالی ووڈ میں اس موضوع پر اتنی فلمیں بنی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کمرشل ازم کا مسئلہ ہے کیونکہ کمرشل ازم کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ جو چیز زیادہ فروخت ہو اسے زیادہ سے زیادہ مقدار یا تعداد میں بنایا جائے۔ یہ بات غلط نہیں لیکن مغربی دنیا اور خاص طور پر امریکا میں اُڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کو جو اہمیت دی جارہی ہے وہ یقینا کمرشل ازم سے آگے کا معاملہ ہے۔
مغرب کا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ خدا اور مذہب کے انکار کے بعد ایک ہولناک خلا سے دوچار ہے اور زندگی کو خلا سے بیر ہے۔ چناں چہ ماورائے کے خلا کو اُڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کے تصور یا امکان سے پُر کرنے کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ امکان ’’مادے‘‘ سے بہتر ہے کیونکہ اس میں ’’نامعلوم‘‘ کی مشابہت پائی جاتی ہے۔
اُڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کے حوالے سے جو بحثیں ہوتی رہی ہیں ان میں بعض افراد نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ ساری باتیں محض افسانہ ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مغرب دُنیا کے مستقبل کے حوالے سے جو منصوبے رکھتا ہے ان کی تکمیل کے سلسلے میں ایک مرحلے پر اُڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کا ڈراما نہایت موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ ساری کہانی اسی لیے گھڑی جارہی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ کہ ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں اور یہ جو اُڑن طشتریوں کے قصے مشہور ہیں یہ اُڑن طشتریاں خود مغرب کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاہکار ہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ باتیں افسانہ نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی سی آئی اے کے پاس زمین پر آکر تباہ ہوجانے والی اُڑن طشتری کا ڈھانچا اور ایک خلائی مخلوق کا لاشہ بھی موجود ہے جس پر عرصے سے ’’تحقیق‘‘ ہورہی ہے اور اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو کسی سیارے پر آباد مخلوق سے شدید خطرات لاحق ہیں اور یہ خطرات حقیقی اور یقینی ہیں۔ چناں چہ یہ جو مخصوص قسم کی فلموں کی ریل پیل ہے یہ انسانوں اور خاص طور پر اہل مغرب کو مستقبل کے کسی منظرنامے سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ چونکہ اس وقت امریکا کو دُنیا میں مرکزیت حاصل ہے اور نقصان کا اندیشہ بھی اسی کو ہے، اس لیے اس کدو کاوش کا مرکز بھی امریکا ہی ہے۔ یہ سارے امکانات غلط ہوسکتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی بہرحال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم خلائی مخلوق کے حوالے سے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے عقیدے کو لاحق خطرات کی بات ان سب باتوں سے زیادہ دلچسپ اور اہم ہے۔
بلاشبہ مذہب کا دعویٰ یہی ہے کہ انسان تمام مخلوقات سے اشرف ہے، لیکن انسان کو اشرف بنایا گیا ہے تو اس کے شرف کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذہانت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے اس لیے اس کا خیال ہے کہ اگر کسی سیارے پر کوئی مخلوق موجود ہوئی تو وہ شاید انسان سے زیادہ ذہین اور ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوگی۔ حالانکہ کوئی مذہب یہ نہیں کہتا کہ انسان کا شرف اس کی ذہانت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں مضمر ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ تصور ہی احمقانہ ہے کہ اگر کل کو کوئی خلائی مخلوق سامنے آجاتی ہے تو اس سے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے تصور کی نفی ہوجائے گی۔ مغرب میں اس حوالے سے جو واویلا مچا ہوا ہے اسے دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ خلائی مخلوق کا ظہور بجائے خود اتنی بڑی بات ہوگی کہ اس سے مذہب اور انسانیت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ یہ خیال بھی انتہائی احمقانہ اور مغرب کی قابل رحم محدودات کا شاہکار ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایک عالم کا ربّ نہیں ہے بلکہ وہ ’’ربّ العالمین‘‘ ہے۔ لفظ ’’عالم‘‘ کی کئی تشریحات ہیں لیکن ان تشریحات سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ کائنات میں کتنے عالم ہیں؟ اس کا علم ہمیں نہیں۔ چنانچہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ کوئی ایک کیا بہت سے عالم ایسے ہوسکتے ہیں جہاں کوئی ’’مخلوق‘‘ موجود ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس سے مذہب اور انسانیت کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟ ہمارے لیے تو اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ربّ العالمین ہے اور اس نے اپنے آخری نبی کریمؐ کو تمام عالموں کے لیے رحمت بنایا ہے، چونکہ خدا تمام عالموں کا ربّ ہے، اس لیے ہماری روایت میں حقیقی علم کی تعریف بھی یہ ہے کہ وہ کسی ایک عالم کا نہیں تمام عالموں کا علم ہوتا ہے۔ مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ ایک یا ڈیڑھ عالم کے علم میں اُلجھ کر رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود اپنے کمال پر نازاں ہے۔ حالاں کہ جو لوگ تمام عالموں کے بارے میں ذرہ برابر بھی علم رکھتے ہیں ان کا علم کسی ایک عالم کے تمام علم پر بھی فوقیت رکھت اہے۔ لیجیے قصہ ہی پاک ہوا۔ لیکن اگر قصہ پاک ہوگیا تو پھر توتوں اور خلائی مخلوق کے قصوں کا کیا بنے گا؟ یہ بات ہم کسی توتے سے پوچھ کر بتائیں گے۔