اسلام آباد:سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ تفصیل کی صورت میں جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان کے پاس سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار ہے، اس ایکٹ کے ذریعے پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو نیچا نہیں دکھایا۔
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں آئین کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی، کیوں کہ پارلیمان سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کی تمام شقوں کا بغور جائزہ لیا گیا گیا، اس سے عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے پارلیمان نے سپریم کورٹ کو نیچا دھانے کی کوشش کی ہے۔ اس ایکٹ سے عدلیہ مضبوط اور زیادہ خودمختار ہوئی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے انصاف تک رسائی میں سہولت ہوئی ہے۔
فیصلے کے مطابق سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے 8جون کو کہا کہ کیس جولائی میں سماعت کے لیے مقرر ہو گا مگر جولائی اور اگست 2 ماہ تک کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا۔
سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے کیس کو سنا مگر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کا معاملہ زیر غور ہی نہیں لایا گیا۔ آئین پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو فرد واحد کی حیثیت سے یہ حق نہیں دیا کہ وہ تنہا فیصلہ کرے۔ آئین کے تحت سپریم کورٹ کو 7 اختیارات دیے گئے ہیں۔ شفاف ٹرائل کے اصول کے تحت عدالتیں آئین و قانون کے تحت فیصلے کرنے اور ہر جج حلف کے تحت قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے تحریر کیا کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس پاکستان اور دیگر ججز پر مشتمل ہے، آئین چیف جسٹس پاکستان کو یک طرفہ مقدمات کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیتا، چیف جسٹس پاکستان اپنی دانش آئین کا متبادل نہیں ہوسکتی، نہ ہی چیف جسٹس پاکستان اپنی رائے دیگر ججز پر تھوپ سکتے ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین و قانون میں ماسٹر آف روسٹر کی کوئی اصطلاح نہیں ہے، جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے، ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کی کی آئین میں ممانعت ہے اور یہ شرعی اصولوں کے خلاف ہے، شرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کے درمیان ہونے والے معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں، اسلام اور پوری دنیا میں کسی فیصلے کیخلاف اپیل کا حق حاصل ہوتا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے تحریر کیا کہ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے، عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں، سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کو چھوٹے بنچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے، آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔