’’پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے فیصلہ سنا دیا‘‘۔ خبر کے مطابق عمران خان (ٹریڈ نیم پی ٹی آئی) کو آنے والے انتخابی ڈھونگ میں بلے کا نشان نہیں ملے گا۔ سیاست میں ’’عرف اسٹیبلشمنٹ‘‘ سمجھتی ہے کہ ملک کے بے بس عوام شاید گندے کھیل کو سمجھنے کے قابل نہیں کہ جو چاہو کرتے رہو فکر کی کوئی بات نہیں! مرد مومن کے دور سے (صحافی، جج اور) سیاستدان پالنے (اور وقت آنے پر ان کوقربان کرنے) کا جو مشغلہ شروع ہوا تھا وہ نواز ٹبر سے نیازی صاحب تک بڑی کامیابی سے چلا۔ پاکستان کے عوام اس چالیس سالہ کھیل سے پوری طرح باخبر ہیں۔ نواز شریف پر مقدمات اور اس کی رخصتی برائے دوا اور واپسی اور اس پر قائم مقدمات کی ہنگامی بنیادوں پر تیز تر صفائی کے پیچھے چھپے منصوبے سے کوئی لاعلم نہیں۔ لوگ دہائیاں دے رہے ہیں کہ الیکشن کے عمل میں یہ مداخلت ملک، قوم اور جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے اس سے بچا جائے لیکن ماضی کی روش بتاتی ہے کہ تم اس کھیل سے باز نہیں آئو گے۔
یاد کرو کہ جمہوریت دشمنوں کا یہ مکروہ کھیل ماضی کے ایک دسمبر میں ملک کو دولخت کر کے ملت کو بہت بڑی رسوائی دے چکا ہے۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ کوئی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ جس پارٹی کو دو الیکشن بلے کے نشان پر لڑائے گئے اس کو تیسری مرتبہ یہ نشان کیوں نہیں ملے گا؟ بات حیرت کی نہیں، بدنیتی اور کوتاہ نظری کی ہے۔ مینیجرز کا خیال یہ ہوگا کہ اس طرح پی ٹی آئی کے ووٹرز کو کنفیوز کرکے اس کے ووٹ کم کیے جاسکیں گے۔ آنے والے انتخابات کے آزادانہ منصفانہ ہونے کے بارے میں ’’یقینی‘‘ شبہات کو تقویت دینے کے لیے بہت سے انتظامات پہلے ہی کر دیے گئے ہیں۔ خان جیل میں ہے۔ اس کے ورکرز اور رہنما زیرعتاب ہیں۔ اس کے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے حصول اور جمع کرانے میں مشکلات ہیں۔ اس سے پہلے پی پی کے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے۔ اس کا آج کا نشان تیر ہے جبکہ اصلی نشان تلوار تھا۔ اس دور کے ارسطو نے بھی یہی سوچا تھا کہ اس طرح پی پی کے ووٹر کنفیوز ہوکر ووٹ ضائع کر دیں گے۔ لیکن تلوار کی جگہ تیر کے آنے سے پارٹی ووٹ پر کوئی فرق نہ پڑا۔ پی پی کو ووٹ بھٹو کے نام پر ملتا تھا۔ سندھ میں کسی حد تک اب بھی کچھ فی صد ووٹ بھٹو کے نام پر ہی ملتے ہیں۔ غالباً اسی لیے زرداریوں نے ’’زرداری بھٹو‘‘ نئی برادری برانڈ ایجاد کی ہے۔
پاکستان کے سیاسی مزاج میں شخصیت پرستی ووٹر کی ترجیح میں پہلے نمبر پر اور نسل، زبان، علاقہ اور فرقہ دوسرے نمبر پر ہیں۔ کیا خیال ہے نون لیگ، پی پی، پی ٹی آئی، فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کو ووٹ کسی نظریے، ایمانداری، خدمت یا کسی جمہوری کارنامے کی وجہ سے ملتے ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی اور شخصیت کے بتوں کا انتخابی کردار ہماری سیاست کے محور ہیں اور رہیں گے۔ کوڑھ مغز اسٹیبلشمنٹ کو کب سمجھ میں آئے گا کہ انتخابی نشان کوئی بھی ہو، ووٹر اسی نشان پر ٹھپا لگائے گا جو اس کی شخصیت کی نمائندگی کے لیے الاٹ ہوگا۔ اس سے ووٹوں کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمہارا اپنا تراشا ہوا خان پچھتر سال کی عمر میں کرکٹ کے میدان میں بیٹنگ نہیں کر رہا کہ اسے بلے کی ضرورت ہو، وہ سیاست کے میدان میں الیکشن لڑ رہا ہے کسی بھی نشان پر لڑ لے گا۔
لگتا ہے کہ کرکٹ کی طرح وہ روایتی سیاست کے گر اور گزشتہ سات آٹھ سال تمہارے قرب میں رہ کر تمہاری کمزوریوں سے بھی خوب واقف ہوچکا ہے۔ ان ساری تلخ حقیقتوں کے باوجود جو گھٹیا سیاسی ذہن قیام پاکستان ہی سے چل رہا ہے وہ شاید ابھی مزید چلتا رہے گا۔ اسٹیبلشمنٹ اور ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی ووٹر کی سوچ کیا ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کروانے میں ناکام رہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ الیکشن کمیشن یہ بتا دیتا کہ جماعت اسلامی کے سوا کون سی پارٹی ہے جس کے انٹرا پارٹی الیکشن پی ٹی آئی سے مختلف ہوتے ہیں تاکہ پی ٹی آئی والے اس کی پیروی کر کے با مراد ہو جاتے۔
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!
ستر پچھتر سال سے قوم جعلی نظام کے ہاتھوں بے مراد ہے۔ بے بس عوام برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پہلے بت تراشے جاتے ہیں۔ جب ان کی پوجا شروع ہوتی ہے تو ان کو توڑنے کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔ نہیں معلوم جمہوریت، اور الیکشن کے نام پر کب تک یہ ڈھونگ پتلی تماشے جاری رہیں گے۔ خبر کا آخری حصہ بہت مزاحیہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے الیکشن کمیشن سے ملاقات میں پی ٹی آئے وفد کے ارکان نے امید ظاہر کی کہ صاف شفاف الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا۔ پی ٹی آئی والے ’’اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘ جس نے 2018 کے عام الیکشن اور سندھ اور سندھ کے دارالحکومت کراچی کے متنازع ترین بلدیاتی الیکشن کروائے۔
آخری بے اثر بات، خوبصورت ملک کو بدنما، وسائل سے مالامال وطن کو کنگال اور ہنر مند اور باصلاحیت قوم کو بھکاری اور دوسری قوموں کا دست نگر بنا دیا تم نے۔ تم تو ’’نوکری کی با برکت کمائی‘‘ لے کر دبئی، سعودیہ، آسٹریلیا، بلجیم اورکسی اور پرامن ملک جا بسو گے، تمہاری توہین سے ڈرنے والی قوم اور تمہاری چراگاہ اس ملک کا کیا بنے گا۔ کبھی سوچو! نوشتہ دیوار کہہ رہا ہے کہ تم صرف انتخابی نشان نہیں چھینتے، تم صحافیوں کے قلم خرید لیتے ہو، جو نہ بیچے اس کا قلم اور گردن توڑ دیتے ہو۔ تم عادل ججوں سے عدل کا ہتھوڑا چھین لیتے ہو، تم عوام کا مینڈیٹ بدل دیتے ہو! عوام بیدار ہو رہے ہیں۔ ڈرو اس وقت سے جب تاج اچھالے جائیں گے!