بلوچستان!! زخم کو ناسور بننے سے روکنا ہوگا

664

بلوچستان سے لانگ مارچ کرتے ہوئے آنے والی خواتین کے ساتھ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی دہلیز پر جو سلوک ہوا اس نے جہاں ایک طرف پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہیں پہلی بار پاکستانیوں کو اندازہ ہوا کہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے اُس پار لوگ کیا سوچتے ہیں اور کن مسائل کا شکار ہیں۔ مراکز سے دوری کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کی حقیقی آواز دنیا تک نہیں پہنچتی بلکہ پہاڑوں سے ٹکرا کر ایک بازگشت بن کر فضائوں میں گم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایسے محروم طبقات کو اپنی بات دنیا تک پہنچانے کے لیے باہر آنا اور مراکز کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان کے زخم خوردہ لوگوں نے متعدد بار پہاڑوں کو عبور کر کے میدانوں میں ڈیرے جمائے مگر ان کی آواز صدا بصحرا ہی ثابت ہوتی رہی۔ اب ایک بار پھر گم کردہ لوگوں کی ماؤں اور بہنوں نے یہ سوال پوچھنے کے لیے مرکز کا رخ کیا کہ آخر ان کے پیارے کہاں ہیں؟ انہیں زمین نگل گئی یا آسمان اُچک کر لے گیا؟ ایک عام سی لڑکی ماہ رنگ بلوچ اس احتجاج کی قیادت اور اس سوال کی جسارت کر رہی تھیں۔ ماہ رنگ بلوچ بھی آنسوئوں کی جھڑی میں اپنی جو کہانی بیان کر رہی ہیں وہ دردناک ہے۔

مسائل جب تشدد کا رنگ اختیار کریں تو حادثات اور روح فرسا داستانیں جنم لیتی ہیں۔ تنازعے کے فریقوں کے پاس دکھانے کو دلوں کے اپنے اپنے زخم ہوتے ہیں۔ اس خونیں کھیل میں مرنے والوں اور گرفتاروں کی دکھ بھری کہانیاں زیرگردش ہوتی ہیں مگر گم کردہ افراد کے لواحقین کا اپنا ہی ایک الگ دکھ ہوتا ہے وہ نہ رو سکتے ہیں نہ مغفرت کی دعا مانگ سکتے ہیں نہ کسی مٹی کے ڈھیر پر جاکر دوچار آنسو بہا کر اپنا غم غلط کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ امید وبیم کی صلیب پر تمام عمر جھولتے ہیں اور دروازے کی ہر آہٹ پر لاشعوری طور پر ان کے کان لگے رہتے ہیں۔ یہ معجزوں اور انہونیوں کے تاحیات منتظر رہتے ہیں اور یہی انتظار ان کے ساتھ قبروں میں اُتر جاتا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں اسلام آباد کا رخ کرنے والے قافلے میں اکثریت انہی کی تھی جو اس عذاب کا شکار ہیں۔ ایک قانون پسند معاشرے میں معصوم اور مجرم کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہوتا ہے۔ ملزم کو مجرم ثابت کرنا اور اس کی سزا کا تعین کرنا عدالت کا کام ہوتا ہے مگر اس سارے جھنجھٹ سے پہلو تہی کرکے کسی کو گم ہی کردینا معاملے کی سنگینی اور شدت کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔

بلوچستان سے لانگ مارچ کرنے والی خواتین کو اسلام آباد میں بیٹھنے نہ دینا اور انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کے مختلف طریقوں کا استعمال بحرانوں کو مزید گہرا اور لاینحل بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے گوادر میں ’’حق دو‘‘ تحریک چل پڑی اور کسی لمبے چوڑے قبائلی تعارف اور تعلق کے بوجھ سے آزاد مولانا ہدایت الرحمان بلوچ اس احتجاجی تحریک کے فطری قائد کے طور پر سامنے آئے۔ ان کا احتجاج پرزور اور پرشور تھا۔ گرفتاریاں ہوئیں تشدد ہوا مگر مراکز تک اس کی گونج نہیں پہنچی شاید اسی تجربے کے بعد بلوچ خواتین نے اپنی کہانی مراکز تک پہنچ کر سنانے کا راستہ اپنایا۔ اس حکمت عملی کا اثر یہ ہوا کہ سوشل میڈیا نے اس آواز کو دور دور تک پہنچایا اور رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا آشوب کئی دہائیوں سے جاری ہے اور ہر بحران اور تشدد کی طرح اس کی بھی کئی پرتیں اور بے شمار وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ بلوچستان کے عوام کی محرومیاں اور وسائل میں حصہ نہ ملنا ہے اور اس کی بھی دووجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ بلوچستان قبائلی نظام کے حامل ہے اس لیے ریاست اور قبائلی سرداروں کے درمیان بالائی سطح پر ایک اتحاد قائم ہے اور ان دونوں فریقوں کے درمیان جو کچھ طے پاتا ہے اس کی نیچے تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ دوسری یہ ہے کہ ریاست بلوچستان کو ایک غیراہم علاقے اور کمزور یونٹ کے طور پر دیکھتی ہے اور اس ذہنیت کے تحت انہیں وسائل میں شریک ہی نہیں کیا جاتا۔ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ حقیقت ہیں مگر اب بلوچ عوام کا غم وغصہ صبر کے پیمانوں سے چھلک پڑا ہے۔ شورش زدہ علاقوں میں پہلی ضرب سچائی اور حقیقت پر پڑتی ہے۔ بقول محسن احسان

جب لہو بہنے کا منظر عام ہو محسن تو پھر
کٹ گیا ہے کون کس کے نام پر دیکھے گا کون

جس انداز سے ریاستی اداروں نے بلوچ خواتین کے احتجاج کو ختم کرایا اس نے ملک پاکستان کے پرانے زخموں کو بھی تازہ کر دیا۔ لوگ یہ سوچنے لگے کہ کہ برسوں پہلے یہی سلوک مشرقی پاکستان میں جائز شکایتوں کے جواب میں روا رکھا گیا ہوگا تدبیر کی غلطیوں اور تدبر کی کمی نے زخموں کو ناسور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہوگا۔ ان خواتین کے ساتھ بہتر انداز میں بھی معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کو خدا جانے موٹیویشنل اسپیکر بن کر تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی فکری لام بندی کا کیا شوق چرایا ہے؟ وہ فرصت کے چند لمحات نکال کر ان خواتین کی کتھا سنتے۔ وزیر اعظم ہائوس کے دروازے ان کے لیے وا کیے جاتے۔ یہ ریاست سے اب بھی تعلق کی تلاش میں سرگرداں خواتین ہیں۔ یہ اپنے مرکز میں اپنی داستان سنانا اور اپنا مقدمہ اپنے عوام کے آگے رکھنے پر مُصر تھیں۔ حکمران طبقات ان خواتین کو واپس بلوچستان کی حدود میں دھکیل کر اس امید اور تعلق کی خواہش کو کمزور کر رہے ہیں۔