ٹک ٹاک سوشل میڈیا اور احکام الٰہی

804

اخبارات میں شائع والی ایک حالیہ خبر کے مطابق معروف درس گاہ جامعہ بنوری ٹائون کراچی نے ’’ٹک ٹاک‘‘ کو دور حاضر کا خطرناک فتنہ اور اس کے استعمال کو شرعی نقطہ ٔ نظر سے حرام قرار دے دیا۔ احکام الٰہی کی رو سے فی زمانہ الیکٹرونک، پرنٹ و سوشل میڈیا کا، فتوے میں دی گئی وجوہات کی روشنی میں جائزہ لینے، شرعی نقطہ ٔ نگاہ سے ان سب ہی کو درست سمت دینے اور ان کا مثبت اور موثر استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔ احکام الٰہی تمام تر قرآن مجید میں درج ہیں، اس کے اولین پیغامبر رسول کریمؐ، آپ کی کہی ہوئی اور لائی ہوئی ہر بات سچی اور قابل عمل، نہ صرف قابل عمل بلکہ عمل ہی کے لیے ہے۔ یہ دورِ فتن ہے اور ہمیں شیطان کی اکساہٹوں سے بھی حفاظت کے لیے دعائیں اور قرآنی آیات بتائی گئی ہیں، شیطان لی ہوئی مہلت میں ضلالت اور گمراہی کے اہداف پر مستقل اور مسلسل کام کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے جتنی مہلت اس کو دی ہے وہ اللہ ہی اپنی حکمت جانتا ہے، اس کتاب میں اپنے آپ کومسلم کے زمرے میں سمجھنے والوں کو شیطان کے ہتھکنڈوں سے، اس کے بتائے ہوئے راستوں سے نہ صرف خبردار کر دیا گیا ہے، بلکہ برے نتائج کے حوالے سے، بچاؤ کے لیے ضروری اقدامات، افعال اور ہدایات سے اللہ تعالیٰ نے آگاہ کر دیا ہے، اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں ابدی خوشحالی اور دائمی لذتوں والی جنت کے حصول کو یقینی بنا دینے کی خوشخبری بھی دی ہے۔

یہ میڈیا کا دور ہے اور مغربی تہذیب بہت خوبصورتی سے معاشرہ میں فحاشی اور عریانی سے لیس ہو کر میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو کر وارد ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر موسیقی، رقص، گانے بجانے کا ہونا اب قابل تعجب نہیں رہا، بعض ٹی وی چینل اسی گناہ جاریہ کے لیے وقف ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ معاشرے میں ناانصافی، عوام کی ناگفتہ صورتحال کی عکاسی، حکمران طبقے اور سیاست کے حوالے سے اکثر مزاحیہ انداز میں مختصر دورانیہ (شارٹ) ویڈیو یا سلائڈ، کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ اس طرح کی اکثر ویڈیوز میں مغربی لباس، نامناسب لباس، نامناسب انداز، بیباکانہ اداؤں، جسمانی حرکات و سکنات، بے حیائی کے ساتھ، دعوت نظارہ دیتی ہوئی خواتین ہوتی ہیں۔ اچھے اچھے اور بظاہر دین دار لوگ تک اس طرح کی ویڈیوز، سلائڈز کو دیکھتے ہیں اور شیئر کرتے ہیں، بظاہر ایک وجہ اس کی یہ ہو سکتی ہے کہ ان کے اپنے خیال میں یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں، مردوں اور خواتین کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں ان کو دیکھیں اور اپنے معاشرے کی تنزلی کو دیکھیں جو خواتین کو ان کی اوڑھنیوں سے بے نیاز کرنے پر نہیں رکتی، بلکہ آئے دن کی ’’کیٹ واک‘‘، برائیڈل شو، کا انعقاد اور اس کی خبریں خواتین کی خوبصورتی دکھانے اور فحش اور عریانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر اس کی سنگینی محسوس کرنی ہو تو سورہ نور آیات 19، 30،31 اور قرآن کریم کے دیگر مقامات اور احادیث کا مطالعہ کر کے دیکھیں۔ ’’اے محمدؐ، ان سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔ (سورہ الکہف: 103، 104) ہمیں اپنے خود ساختہ مفاہم اسلام کو احکام الٰہی کے مطابق ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے کتاب سے رشتہ چھوڑ دیا اور میڈیا سے رشتہ جوڑ لیا، مشرقی اقدار سے ناتا توڑ کر مغرب کی متضاد اقدار کو اپنا لیا، علم اور دانش کو کتابوں تک محدود کر دیا، اہل علم، دانش اور مفکرین کے بجائے مسخروں، اداکاروں، مغربی تہذیب کے سحر میں گرفتار ادیب، آزاد خیال صحافی اور بے ہودہ ادب روایت کرنے والے ادیبوں کے اقوال سے مستفید ہونا، تفریح طبع کے لیے اسلامی، شعائر اسلام کی تضحیک پر مشتمل مواد کو فارورڈ اور شیئر کر کے معاشرے میں عمومی مزاج کو غیر سنجیدہ بنا دیا ہے اور پھکڑ پن پیدا کر دیا ہے، آخر یہ رویے کب اور کس طرح تبدیل ہوں گے؟ انسانوں کا انسانوں پر انسانیت سوز ظلم پر مبنی، سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز کو ہم پیر پر پیر رکھے کافی و چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کرکٹ میچ کی طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ واقعی کتنے بے حس ہو گئے ہیں ہم لوگ۔

سوشل میڈیا پر ہم اپنے وقت کے استعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں، آیا اس کا شمار اور مصرف لغو ہے یا مفید؟ مومن تو ’’لغویات سے دور رہتے ہیں‘‘۔ (سورہ المومنون) چشم تصور سے دیکھیں، جو کراماً کاتبین ربّ کریم نے ہمارے ساتھ مقرر کیے ہیں وہ سوشل میڈیا پر ہمارے وقت کو کس زمرے میں لکھیں گے۔؟ غور کیجیے قرآن و حدیث کو ہم نے طاق پر رکھ دیا ہے، سطحی بلکہ گری ہوئی سوچ کے افراد، کرپٹ اور جھوٹے سیاستدانوں، ماڈلز، اداکاروں، گلوکاروں کو ہم گھنٹوں میڈیا پر ٹاک شوز میں اور مزاحیہ پروگراموں میں سنتے اور دیکھتے ہیں تو پھر معاشرہ منفی اثرات سے کیسے بچ پائے گا۔

وقت کیا ہے؟، دراصل یہ ہمیں دی ہوئی عمر اور مہلت ہے، اس مختصر سی اور محدود مدت میں جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں یا تو وہ اعمال ہمیں جنت کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں یا جہنم کے راستے پر۔ غرض آپ کہیں بھی جائیں، لوگوں نے وقت گزاری کے لیے اب موبائل پر ہی اکتفا کر لیا ہے، ظاہر ہے کہ گھنٹوں جو موبائل کی گرفت میں رہتا ہے وہ اس کے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ اس معاملے پر تو قطعی دو رائے نہیں ہے کہ ہمارے بچے موبائل سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ اور پھر، اپنا جائزہ بھی لیں، نوجوان تو جذباتی عمر سے گزر رہے ہیں لیکن یہ جو بڑے ہیں ان کے بھی اکثر موضوعات، سنجیدگی سے ہٹ گئے ہیں۔ آج موقع ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات پر غور و تدبر کریں اور سیرت رسول کریم سے مستفید ہوتے ہوئے سوچ بچار کریں کہ سوشل میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر ایک مسلمان کے لیے کیا حدود و قیود ہو سکتی ہیں؟ یہ ایک وسیع موضوع ہے اور اس پر سیر حاصل گفتگو اور ایک قابل عمل لائحہ عمل بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنے نوجوان طبقہ کو پاکیزہ سوچ دے سکیں اور ایک پاکیزہ معاشرہ کے خدو خال تیار کر سکیں۔ اس وقت معاشرہ کی جو صورتحال ہے خاص کر جوان طبقے میں، اس کی وجوہات پر غور کریں تو ہمیں کئی وجوہات نظر آئیں گی، ان میں بیروز گاری، نوجوانوں کی بر وقت شادی کا بوجہ نہ ہونا سنگین مسائل ہیں، یہ اور ان جیسے مسائل پر غور و فکر اور ان کا قابل عمل حل دینا ہمارے ارباب اختیار اور اہل دانش، سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور ان کے قائدین کی ذمے داریوں میں ہے۔

مختصر بات یہ کہ، سوشل میڈیا ہو یا اس سے باہر، گھر ہو یا دفتر یا بے تکلف دوستوں کی گپ بازیاں، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا خوشی کی تقریبات، سیاسی جلسے ہوں یا سماجی سر گرمیاں، چینلوں پر آنے والے تجارتی اشتہارات ہوں یا ڈرامے، احکام الٰہی تو آئے ہی لاگو ہونے کے لیے ہیں۔