8 فروری کو انتخاب کا ابرآلود مطلع عدالت عظمیٰ نے صاف کردیا اور اس عمل کے بعد چیف جسٹس فائز عیسیٰ ملک کے باہر چلے گئے اور اپنے پیچھے چہ مگوئیوں کی داستانیں چھوڑ گئے۔ مطلع انتخاب کی دھند صاف ہوئی تو سیاسی کھلاڑیوں کو صاف نظر آنے لگا کہ اقتدار کی منزل کی سیڑھی کون سی ہے اور کس سے عنا مفید ہوگا۔ اور کس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا راہِ اقتدار کو کھوٹا کرے گا۔ یوں اب اتحاد کی کھچڑی پھر چولہے پر دم بخت ہونے کے لیے رکھی جانے کی تیاریاں شروع ہوچکی ہے۔ پی پی پی جو مسلم لیگ (ن) کو دام فریب میں لانے کے لیے پی ٹی آئی کی طرف نظر التفات کا مظاہرہ زبانی کلامی کررہی تھی اس نے جانا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ میل ملاپ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ والا ہوگا۔ مصنوعی سیاسی موسم پی ٹی آئی سے منحرف ہوچکا ہے سو پی پی پی کے کمانڈر چیف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے دوستوں کو کہہ ڈالا کہ خبردار جو نگاہ اتحاد بھی تحریک انصاف کی طرف اٹھائی۔ میں تو ان سے مذاق کررہا تھا اور مقتدر حلقوں میں قدرو قیمت بڑھا رہا تھا کہ دیکھو کہ حصہ بڑھائو ورنہ ہم پھر بھی پرانی تنخواہ یعنی صدارت پر بھی کام کرنے کو سروتسلیم خم کرنے کو بھی تیار ہیں، مگر اب صدارت کی کرسی پر نظر مولانا فضل الرحمن دام برکاتہم کی بھی ہے جو ہر دکھ کے مرحلے میں مقتدر حلقوں کے کام آتے رہے ہیں۔ مقتدر حلقوں کے کام تو آصف علی زرداری بھی اکثر زرکثیر کے ساتھ آتے رہے ہیں مگر ان کے نامہ اعمال میں چند قریبی دوستوں کی گرفتاری پر کہا جانے والا یہ جملہ کہ ہم اینٹ سے اینٹ بجادیں گے مقتدر حلقوں سے تعلقات میں ایسا ڈینٹ ڈال گیا جو ریپیئرنگ کے باوجود بھی مٹ نہ سکا ہے۔
مولانا فضل الرحمن سے فضل و کرم کے طلب گار دونوں بڑے یعنی نواز شریف اور آصف علی ہیں اور مولانا فضل الرحمن مانگ میں سندور بھرنے کا تقاضا کررہے ہیں۔ کے پی کے میں مولانا کی دعا کے طلب گار حصہ پانے کے لیے اے این پی، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی بولی لگا رہی ہیں اور مولانا فضل الرحمن فرما رہے ہیں کہ ملکی سیاست پر عالمی اداروں کا قبضہ ہے اور ہماری آزادی دائو پر لگی ہوئی ہے اور ہماری سیاست و معیشت دبائو میں ہے۔ عالمی اداروں اور معاہدوں سے ہمیں غلام بنایا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمن کا یہ فرمان انتخابی سیزن میں جبکہ ان کی جان کو خطرہ بتایا گیا ہے معنیٰ خیز ہے وہ کسی اقتدار کی این آر او جو عالمی طاقتوں نے کرایا تھا اور اقتدار پندرہ سالہ پٹے پر دیا گیا تھا اس میں مولانا فضل الرحمن کو فارغ اقتدار کردیا گیا تھا کہ دوبارہ اعادہ سے متوش ہیں کہ سیاست اور معیشت کے بحرانی دور میں پھر دو پاٹوں میں وہ پر رگڑے نہ جائیں۔ جماعت اسلامی جو اتحاد کی سیاست کو خوب بھگت چکی ہے اب اس نے اس سنہری جال کو تار تار کرتے ہوئے دونوں اقتداری پارٹیوں پی پی پی اور نواز لیگ سے اتحاد نہ کرنے کا اعلان کرکے ترازو میدان سیاست میں لاکھڑا کیا کہ جو ترازو پر پورا اترے گا اس سے ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔ بس بہت ہوگئی اتحاد کی سیاست ہم باز آئے دل فریب منافقت کے اس جھانسے سے۔
اب انتخابی مطلع ضرور صاف ہوا ہے مگر خدشات التوا انتخاب ہرگز کم نہ ہوئے ہیں دل مطمئن نہیں ہورہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے کا طوفان سیاسی ذہنوں میں امڈا ہوا ہے۔ مطلع صاف ہوا تو چشم کشا صورت حال سے بھگدڑ مچ گئی۔ پی پی پی کے برسوں سے رفیق سینئر وکیل لطیف کھوسہ نے جانا کہ مستقبل تحریک انصاف کا ہے، وہ پی پی پی چھوڑ کر اپنے ساتھ انصاف کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور یوں ہی معروف عالم دین حامد سعید کاظمی جو سابق وفاقی وزیر بھی ہیں آصف علی زرداری کی اسلامی ضرورت دیکھ کر پی پی پی میں شامل ہوگئے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ پی پی پی کو کوئی کوثر نیازی نہ مل جائے اور یوں وہ محروم نہ رہ جائیں۔ سیاسی کھچڑی پک رہی ہے، مصنوعی بارش پنجاب کا جو اسموگ سے نجات کا تجربہ حال ہی میں ہوا وہ ناکام ٹھیرا ائرکوالٹی انڈیکس کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا، اور یہ مصنوعی تجربہ جو ناکام ٹھیرا انتخاب میں مصنوعی ووٹوں کی برسات کی صورت پر بھی ناکام تو نہیں ہوجائے گا اور سب کییکرائے پر ہاتھ تو نہ پھر جائے گا۔ لوگوں کے جذبات اور تیور کچھ اچھے نہیں انہوں نے مصنوعی حکمرانوں کی مصنوعات کو خوب پرکھ لیا ہے۔ ان مصنوعات کی منڈی میں مانگ نہیں رہی ہے اگر یہ قوم کے سر منڈھی گئی تو مقتدر حلقوں کو 1977ء جیسی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا تھوپے جانے والی بات آسان نہ ہوگی سوچ لو، مصنوعی ووٹوں کی برسات بار آور نہ کل ہوئی نہ اب ہوگی۔ ان شاء اللہ باز آجائو!